This media is not supported in your browser
VIEW IN TELEGRAM
سورۃ نمبر 62 - الجمعة - آیت نمبر 2
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
هُوَ الَّذِىۡ بَعَثَ فِى الۡاُمِّيّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡهُمۡ يَتۡلُوۡا عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيۡهِمۡ وَيُعَلِّمُهُمُ الۡكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ وَاِنۡ كَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍۙ
ترجمہ:
وہی ہے جس نے اٹھایا ان پڑھوں میں ایک رسول انہی میں کا پڑھ کر سناتا ہے ان کو اس کی آیتیں اور ان کو سنوارتا ہے اور سکھلاتا ہے ان کو کتاب اور عقلمندی اور اس سے پہلے وہ پڑے ہوئے تھے صریح بھول میں.
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
هُوَ الَّذِىۡ بَعَثَ فِى الۡاُمِّيّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡهُمۡ يَتۡلُوۡا عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيۡهِمۡ وَيُعَلِّمُهُمُ الۡكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ وَاِنۡ كَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍۙ
ترجمہ:
وہی ہے جس نے اٹھایا ان پڑھوں میں ایک رسول انہی میں کا پڑھ کر سناتا ہے ان کو اس کی آیتیں اور ان کو سنوارتا ہے اور سکھلاتا ہے ان کو کتاب اور عقلمندی اور اس سے پہلے وہ پڑے ہوئے تھے صریح بھول میں.
Maulana Hameedullah Lone Hafidahullah
سورۃ نمبر 62 - الجمعة - آیت نمبر 2 أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ هُوَ الَّذِىۡ بَعَثَ فِى الۡاُمِّيّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡهُمۡ يَتۡلُوۡا عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيۡهِمۡ وَيُعَلِّمُهُمُ الۡكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ…
تفسیر معارف القرآن:
(آیت) هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُم، امیین، امی کی جمع ہے، ناخواندہ شخص کو کہا جاتا ہے، عرب کے لوگ اس لقب سے معروف ہیں، کیونکہ ان میں نوشت و خواند کا رواج نہیں تھا بہت آدمی لکھے پڑھے ہوتے تھے، اس آیت میں حق تعالیٰ کی عظیم قدرت کے اظہار کے لئے خاص طور پر عربوں کے لئے یہ لقب اختیار فرمایا اور یہ بھی کہ جو رسول بھیجا گیا وہ بھی انہی میں سے ہے یعنی امی ہے، اس لئے یہ معاملہ بڑا حیرت انگیز ہے کہ قوم ساری امی اور جو رسولبھیجا گیا وہ بھی امی اور جو فرائض اس رسول کے سپرد کئے گئے جن کا ذکر اگلی آیت میں آ رہا ہے وہ سب علمی تعلیمی اصلاحی ایسے ہیں کہ نہ کوئی امی ان کو سکھا سکتا ہے اور نہ امی قوم ان کو سیکھنے کے قابل ہے۔
یہ صرف حق تعالیٰ جل شانہ کی قدرت کا ملہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اعجاز ہی ہوسکتا ہے کہ آپ نے جب تعلیم و اصلاح کا کام شروع فرمایا تو انہی امیین میں وہ علماء اور حکماء پیدا ہوگئے جن کے علم و حکمت، عقل و دانش اور ہر کام کی عمدہ صلاحیت نے سارے جہان سے اپنا لوہا منوالیا۔
بعثت نبوی کے تین مقصد
(آیت) يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ ۔ اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تین وصف نعمائے الٰہیہ کے ضمن میں بتلائے گئے ہیں ایک تلاوت آیات قرآن یعنی قرآن پڑھ کر امت کو سنانا، دوسرے ان کو ظاہری اور باطنی ہر طرح کی گندگی اور نجاست سے پاک کرنا، جس میں بدن اور لباس وغیرہ کی ظاہری پاکی بھی داخل ہے اور عقائد و اعمال اور اخلاق و عادات کی پاکیزگی بھی، تیسرے تعلیم کتاب و حکمت۔
یہ تینوں چیزیں امت کے لئے حق تعالیٰ کے انعامات میں ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے مقاصد بھی۔
يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِه، تلاوت کے اصل معنی اتباع و پیروی کے ہیں، اصطلاح میں یہ لفظ کلام اللہ کے پڑھنے کے لئے استعمال ہوتا ہے اور آیات سے آیات قرآن کریم مراد ہیں، لفظ علیہم سے یہ بتلایا گیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک منصب اور مقصد بعثت یہ ہے کہ آیات قرآن لوگوں کو پڑھ کر سنا دیں۔
آیت مذکورہ میں بعثت نبوی کا دوسرا مقصد یزکیھم بتلایا ہے، یہ تزکیہ سے مشتق ہے، جس کے معنی پاک کرنے کے ہیں، بیشتر مغوی اور باطنی پاکی کے لئے بولا جاتا ہے، یعنی کفر و شرک اور برے اخلاق و عادات سے پاک ہونا اور کبھی مطلقاً ظاہری اور باطنی پاکی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے، یہاں بظاہر یہی عام معنی مراد ہیں۔
تیسرا مقصد يُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ ، کتاب سے مراد قرآن کریم اور حکمت سے مراد وہ تعلیمات و ہدایات ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قولاً یا عملاً ثابت ہیں، اسی لئے بہت سے حضرات مفسرین نے یہاں حکمت کی تفسیر سنت سے فرمائی ہے۔
ایک سوال و جواب
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بظاہر ترتیب کا تقاضا یہ تھا کہ تلاوت کے بعد تعلیم کا ذکر کیا جاتا اس کے بعد تزکیہ کا، کیونکہ ان تینوں وظائف کی ترتیب طبعی یہی ہے کہ پہلے تلاوت یعنی تعلیم الفاظ پھر تعلیم معانی اور ان دونوں کے نتیجے میں اعمال و اخلاق کی درستی جو تزکیہ کا مفہوم ہے، مگر قرآن کریم میں یہ آیت کئی جگہ آئی ہے، اکثر جگہوں میں ترتیب بدل کر تلاوت اور تعلیم کے درمیان تزکیہ کا ذکر فرمایا ہے۔
روح المعانی میں اس کی یہ کیفیت بتلائی ہے کہ اگر ترتیب طبعی کے مطابق رکھا جاتا تو یہ تینوں چیزیں مل کر ایک ہی چیز ہوتی جیسے معالجات کے نسخوں میں کئی دوائیں مل کر مجموعہ ایک ہی دوا کہلاتی ہے اور یہاں اسی حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ یہ تینوں چیزیں الگ الگ مستقل نعمت خداوندی ہیں اور تینوں کو الگ الگ فرائض رسالت قرار دیا گیا ہے، اس ترتیب کے بدلنے سے اس طرف اشارہ ہوسکتا ہے۔
اس آیت کی مکمل تفسیر و تشریح بہت سے اہم مسائل و فوائد پر مشتمل سورة بقرہ میں گزر چکی ہے اس کو دیکھ لیا جائے، معارف القرآن جلد اول صفحہ 272 سے 284 تک یہ مضامین آئے ہیں۔
(آیت) هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُم، امیین، امی کی جمع ہے، ناخواندہ شخص کو کہا جاتا ہے، عرب کے لوگ اس لقب سے معروف ہیں، کیونکہ ان میں نوشت و خواند کا رواج نہیں تھا بہت آدمی لکھے پڑھے ہوتے تھے، اس آیت میں حق تعالیٰ کی عظیم قدرت کے اظہار کے لئے خاص طور پر عربوں کے لئے یہ لقب اختیار فرمایا اور یہ بھی کہ جو رسول بھیجا گیا وہ بھی انہی میں سے ہے یعنی امی ہے، اس لئے یہ معاملہ بڑا حیرت انگیز ہے کہ قوم ساری امی اور جو رسولبھیجا گیا وہ بھی امی اور جو فرائض اس رسول کے سپرد کئے گئے جن کا ذکر اگلی آیت میں آ رہا ہے وہ سب علمی تعلیمی اصلاحی ایسے ہیں کہ نہ کوئی امی ان کو سکھا سکتا ہے اور نہ امی قوم ان کو سیکھنے کے قابل ہے۔
یہ صرف حق تعالیٰ جل شانہ کی قدرت کا ملہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اعجاز ہی ہوسکتا ہے کہ آپ نے جب تعلیم و اصلاح کا کام شروع فرمایا تو انہی امیین میں وہ علماء اور حکماء پیدا ہوگئے جن کے علم و حکمت، عقل و دانش اور ہر کام کی عمدہ صلاحیت نے سارے جہان سے اپنا لوہا منوالیا۔
بعثت نبوی کے تین مقصد
(آیت) يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ ۔ اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تین وصف نعمائے الٰہیہ کے ضمن میں بتلائے گئے ہیں ایک تلاوت آیات قرآن یعنی قرآن پڑھ کر امت کو سنانا، دوسرے ان کو ظاہری اور باطنی ہر طرح کی گندگی اور نجاست سے پاک کرنا، جس میں بدن اور لباس وغیرہ کی ظاہری پاکی بھی داخل ہے اور عقائد و اعمال اور اخلاق و عادات کی پاکیزگی بھی، تیسرے تعلیم کتاب و حکمت۔
یہ تینوں چیزیں امت کے لئے حق تعالیٰ کے انعامات میں ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے مقاصد بھی۔
يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِه، تلاوت کے اصل معنی اتباع و پیروی کے ہیں، اصطلاح میں یہ لفظ کلام اللہ کے پڑھنے کے لئے استعمال ہوتا ہے اور آیات سے آیات قرآن کریم مراد ہیں، لفظ علیہم سے یہ بتلایا گیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک منصب اور مقصد بعثت یہ ہے کہ آیات قرآن لوگوں کو پڑھ کر سنا دیں۔
آیت مذکورہ میں بعثت نبوی کا دوسرا مقصد یزکیھم بتلایا ہے، یہ تزکیہ سے مشتق ہے، جس کے معنی پاک کرنے کے ہیں، بیشتر مغوی اور باطنی پاکی کے لئے بولا جاتا ہے، یعنی کفر و شرک اور برے اخلاق و عادات سے پاک ہونا اور کبھی مطلقاً ظاہری اور باطنی پاکی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے، یہاں بظاہر یہی عام معنی مراد ہیں۔
تیسرا مقصد يُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ ، کتاب سے مراد قرآن کریم اور حکمت سے مراد وہ تعلیمات و ہدایات ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قولاً یا عملاً ثابت ہیں، اسی لئے بہت سے حضرات مفسرین نے یہاں حکمت کی تفسیر سنت سے فرمائی ہے۔
ایک سوال و جواب
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بظاہر ترتیب کا تقاضا یہ تھا کہ تلاوت کے بعد تعلیم کا ذکر کیا جاتا اس کے بعد تزکیہ کا، کیونکہ ان تینوں وظائف کی ترتیب طبعی یہی ہے کہ پہلے تلاوت یعنی تعلیم الفاظ پھر تعلیم معانی اور ان دونوں کے نتیجے میں اعمال و اخلاق کی درستی جو تزکیہ کا مفہوم ہے، مگر قرآن کریم میں یہ آیت کئی جگہ آئی ہے، اکثر جگہوں میں ترتیب بدل کر تلاوت اور تعلیم کے درمیان تزکیہ کا ذکر فرمایا ہے۔
روح المعانی میں اس کی یہ کیفیت بتلائی ہے کہ اگر ترتیب طبعی کے مطابق رکھا جاتا تو یہ تینوں چیزیں مل کر ایک ہی چیز ہوتی جیسے معالجات کے نسخوں میں کئی دوائیں مل کر مجموعہ ایک ہی دوا کہلاتی ہے اور یہاں اسی حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ یہ تینوں چیزیں الگ الگ مستقل نعمت خداوندی ہیں اور تینوں کو الگ الگ فرائض رسالت قرار دیا گیا ہے، اس ترتیب کے بدلنے سے اس طرف اشارہ ہوسکتا ہے۔
اس آیت کی مکمل تفسیر و تشریح بہت سے اہم مسائل و فوائد پر مشتمل سورة بقرہ میں گزر چکی ہے اس کو دیکھ لیا جائے، معارف القرآن جلد اول صفحہ 272 سے 284 تک یہ مضامین آئے ہیں۔
Guarantee Of Paradise By Prophet (Ṣallallāhu-'Alaihi Wa Sallam) For Promising And Fulfilling 6 Deeds 👇
The Messenger of Allāh Ṣallallāhu-'Alaihi Wa Sallam said: “Guarantee me six things in yourselves and I will guarantee you Jannah;
• Be truthful when you speak
• And fulfill your (pledge) when you make a promise
• And pay (in full) when you are entrusted
• And protect your private parts
• And lower your gaze
• And hold your hands back from touching (what's unlawful).”
● [سلسلة الأحاديث الصحيحة ١٤٧٠ ، حسنه الألباني]
The Messenger of Allāh Ṣallallāhu-'Alaihi Wa Sallam said: “Guarantee me six things in yourselves and I will guarantee you Jannah;
• Be truthful when you speak
• And fulfill your (pledge) when you make a promise
• And pay (in full) when you are entrusted
• And protect your private parts
• And lower your gaze
• And hold your hands back from touching (what's unlawful).”
● [سلسلة الأحاديث الصحيحة ١٤٧٠ ، حسنه الألباني]
•••بزرگوں کی خدمت میں حاضری کا فائدہ•••
از:حضرت شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
میرے شیخ حضرت والا (حضرت ڈاکٹر عبدالحئی عارفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ) فرمایا کرتے تھے کہ (بزرگوں کی)مجلس میں جو باتیں ہوتی ہیں ، بعض لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ان باتوں کو یاد کرلیں ۔ مگر یہ باتیں یاد نہیں ہوتیں ۔ اس پر اپنا واقعہ سنایا کہ میں بھی حضرت تھانوی قدس اللہ سرہٗ کی مجلس میں جب حاضر ہوتا تو یہ دل چاہتا کہ حضرت والا کی باتیں لکھ لیا کروں ، بعض لوگ لکھ لیا کرتے تھے۔ مجھ سے تیز لکھا نہیں جاتا تھا اس لئے میں لکھنے سے رہ جاتا تھا۔ میں نے ایک دن حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا کہ حضرت! میرا دل چاہتا ہے کہ ملفوظات لکھ لیا کروں ۔ مگر لکھا جاتا نہیں ، اور یاد رہتے نہیں ہیں ۔ بھول جاتا ہوں ۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے جواب میں فرمایا کہ لکھنے کی کیا ضرورت ہے خود صاحبِ ملفوظ کیوں نہیں بن جاتے؟ حضرت والا فرماتے ہیں کہ میں تو تھرّا گیا کہ میں کہاں صاحبِ ملفوظ بن سکتا ہوں ۔ پھر حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ بات دراصل یہ ہے کہ جو بات حق ہو اور فہم سلیم پر مبنی ہو، صحیح فکر پر مبنی ہو۔ جب ایسی بات تمہارے کان میں پڑگئی، اور تمہارے دل نے اسے قبول کرلیا، وہ بات تمہاری ہوگئی اب چاہے وہ بات بعینہ انہی لفظوں میں یاد رہے یا نہ رہے، جب وقت آئے گا، انشاء اللہ اس وقت یاد آجائے گی، اور اس پر عمل کی توفیق دہوجائے گی۔
بزرگوں کی خدمت میں جانے اور ان کی باتیں سننے کا یہی فائدہ ہوتا ہے کہ وہ کان میں باتیں ڈالتے رہتے ہیں ۔ ڈالتے رہتے ہیں ۔ یہاں تک کہ وہ باتیں انسان کی طبیعت میں داخل ہوجاتی ہیں ، اور پھر وقت پر یاد آجاتی ہیں ۔
•بزرگوں کے ملفوظات، حالات، سوانح پڑھنے کی اہمیت
میں آج سوچتا ہوں کہ حضرت والد ماجد قدس اللہ سرہٗ، حضرت ڈاکٹر صاحب قدس اللہ سرہٗ اور حضرت مولانا مسیح اللہ خاں صاحب قدس اللہ سرہٗ، ان تینوں بزرگوں سے میرا تعلق رہا ہے، اپنا حال توتباہ ہی تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان بزرگوں کی خدمت میں حاضری کی توفیق عطا فرمادی۔ یہ ان کا فضل و کرم تھا۔ اب ساری عمر بھی اس پر شکر ادا کروں تب بھی ادانہیں ہوسکتا، یہ بزرگ کچھ باتیں زبردستی کان میں ڈال گئے۔ اپنی طرف سے نہ تو جن کی طلب تھی اور نہ خواہش اوراگر میں ان باتوں کو اب نمبر وار لکھنا چاہوں جو ان بزرگوں کی مجلسوں میں سنی تھیں ، تو فوری طور پر سب کا یاد آنا مشکل ہے لیکن کسی نہ کسی موقع پر وہ باتیں یاد آجاتی ہیں ۔ اور بزرگوں سے تعلق کا یہی فائدہ ہوتا ہے،اور جس طرح بزرگوں کی خدمت میں حاضری نعمت ہے، اور ان کی بات سننا نعمت ہے۔ اسی طرح ان بزرگوں کے ملفوظات، حالات، سوانح پڑھنا بھی اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے۔ آج یہ حضرات موجود نہیں ہے مگر الحمد للہ سب باتیں لکھی ہوئی چھوڑ گئے ہیں ان کو مطالعہ میں رکھنا چاہئے۔ یہ باتیں کام آجاتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ہمیں ان بزرگوں کا دامن تھامے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
از:حضرت شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
میرے شیخ حضرت والا (حضرت ڈاکٹر عبدالحئی عارفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ) فرمایا کرتے تھے کہ (بزرگوں کی)مجلس میں جو باتیں ہوتی ہیں ، بعض لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ان باتوں کو یاد کرلیں ۔ مگر یہ باتیں یاد نہیں ہوتیں ۔ اس پر اپنا واقعہ سنایا کہ میں بھی حضرت تھانوی قدس اللہ سرہٗ کی مجلس میں جب حاضر ہوتا تو یہ دل چاہتا کہ حضرت والا کی باتیں لکھ لیا کروں ، بعض لوگ لکھ لیا کرتے تھے۔ مجھ سے تیز لکھا نہیں جاتا تھا اس لئے میں لکھنے سے رہ جاتا تھا۔ میں نے ایک دن حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا کہ حضرت! میرا دل چاہتا ہے کہ ملفوظات لکھ لیا کروں ۔ مگر لکھا جاتا نہیں ، اور یاد رہتے نہیں ہیں ۔ بھول جاتا ہوں ۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے جواب میں فرمایا کہ لکھنے کی کیا ضرورت ہے خود صاحبِ ملفوظ کیوں نہیں بن جاتے؟ حضرت والا فرماتے ہیں کہ میں تو تھرّا گیا کہ میں کہاں صاحبِ ملفوظ بن سکتا ہوں ۔ پھر حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ بات دراصل یہ ہے کہ جو بات حق ہو اور فہم سلیم پر مبنی ہو، صحیح فکر پر مبنی ہو۔ جب ایسی بات تمہارے کان میں پڑگئی، اور تمہارے دل نے اسے قبول کرلیا، وہ بات تمہاری ہوگئی اب چاہے وہ بات بعینہ انہی لفظوں میں یاد رہے یا نہ رہے، جب وقت آئے گا، انشاء اللہ اس وقت یاد آجائے گی، اور اس پر عمل کی توفیق دہوجائے گی۔
بزرگوں کی خدمت میں جانے اور ان کی باتیں سننے کا یہی فائدہ ہوتا ہے کہ وہ کان میں باتیں ڈالتے رہتے ہیں ۔ ڈالتے رہتے ہیں ۔ یہاں تک کہ وہ باتیں انسان کی طبیعت میں داخل ہوجاتی ہیں ، اور پھر وقت پر یاد آجاتی ہیں ۔
•بزرگوں کے ملفوظات، حالات، سوانح پڑھنے کی اہمیت
میں آج سوچتا ہوں کہ حضرت والد ماجد قدس اللہ سرہٗ، حضرت ڈاکٹر صاحب قدس اللہ سرہٗ اور حضرت مولانا مسیح اللہ خاں صاحب قدس اللہ سرہٗ، ان تینوں بزرگوں سے میرا تعلق رہا ہے، اپنا حال توتباہ ہی تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان بزرگوں کی خدمت میں حاضری کی توفیق عطا فرمادی۔ یہ ان کا فضل و کرم تھا۔ اب ساری عمر بھی اس پر شکر ادا کروں تب بھی ادانہیں ہوسکتا، یہ بزرگ کچھ باتیں زبردستی کان میں ڈال گئے۔ اپنی طرف سے نہ تو جن کی طلب تھی اور نہ خواہش اوراگر میں ان باتوں کو اب نمبر وار لکھنا چاہوں جو ان بزرگوں کی مجلسوں میں سنی تھیں ، تو فوری طور پر سب کا یاد آنا مشکل ہے لیکن کسی نہ کسی موقع پر وہ باتیں یاد آجاتی ہیں ۔ اور بزرگوں سے تعلق کا یہی فائدہ ہوتا ہے،اور جس طرح بزرگوں کی خدمت میں حاضری نعمت ہے، اور ان کی بات سننا نعمت ہے۔ اسی طرح ان بزرگوں کے ملفوظات، حالات، سوانح پڑھنا بھی اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے۔ آج یہ حضرات موجود نہیں ہے مگر الحمد للہ سب باتیں لکھی ہوئی چھوڑ گئے ہیں ان کو مطالعہ میں رکھنا چاہئے۔ یہ باتیں کام آجاتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ہمیں ان بزرگوں کا دامن تھامے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین