All India Muslim Personal Law Board
27.4K subscribers
3.24K photos
130 videos
440 files
2.49K links
Leading NGO of Indian Muslims for their Legal & Constitutional rights.

AIMPLB Teligram Group @AIMPLBgroup1


https://twitter.com/AIMPLB_Official

https://www.youtube.com/AIMPLB_Official

http://fb.me/AIMPLB.Official

Wtsp:8788657771
Download Telegram
khitab e juma 26 April 2024.pdf
1.2 MB
#سلسلہ_خطاب_جمعہ نمبر: 222

🗓 تاریخ: 26 اپریل 2024 بمطابق 16 شوال المکرم 1445

🎯 آن لائن جوّا اور قمار
معاشرے میں پھیلتا ناسور

📌 خطاب جمعہ ڈاؤنلوڈ کرنے کے لیے 👇اس لنک پر کلک کریں:
https://t.me/AIMPLB_Official/7990
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
▪️ہر ہفتہ بورڈ کی طرف سے جاری ہونے والا خطبۂ جمعہ حاصل کرنے کے درج ذیل نمبر پر اپنا نام اور پتہ بذریعہ وہاٹس ایپ ارسال کریں:
http://wa.me/+918657219464

🎁 منجانب: سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
*جمعہ کے دن قبولیت دعا کی گھڑی*

*जुमा के दिन क़ुबूलियत-ए-दुआ की घड़ी*

*Jumu'ah Ke Din Qubuliyat-e-Dua Ki Ghadi*

👇🏽👇👇🏽👇👇🏽👇
.................................................
_▪️ *Share Your Friends and Follow AIMPLB 🪀 Channel:*_
👉https://whatsapp.com/channel/0029VaAE3Bx9Gv7Ld7mMMR3P
*🎯 مسلمان کیا کریں؟*

*_🖋 حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم_*

https://www.facebook.com/share/p/zYShLu2WV3YipRTG/?mibextid=oFDknk
----------------------------------------------
’’جہاد‘‘ ایک ایسا لفظ ہے کہ جس کو مغربی اہل قلم اور حکومتوں نے بدنام کرکے رکھ دیا ہے ، یہاں تک کہ مسلمانوں کی نئی نسل بھی جہاد کے تذکرہ پر شرمندگی اور احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتی ہے ؛ حالاںکہ یہ محض پروپیگنڈہ یا غلط فہمی ہے ، امن اور انصاف قائم کرنے کی کوشش کو ’’جہاد‘‘ کہتے ہیں ، جہاد کا تعلق صرف میدان کارزار اور فولادی وآتشی ہتھیاروں سے نہیں ہے ؛ بلکہ انسان کی ان تمام صلاحیتوں سے ہے ، جو امن و انصاف قائم کرنے کے مقصد کو پورا کرسکتی ہیں ، جہاد زبان سے بھی ہے ؛ چنانچہ پیغمبر اسلام ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کا کہنا جہاد کی سب سے افضل صورت ہے : أفضل الجہاد کلمۃ حق عند سلطان جائر (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر:۴۳۴۴ )اور جو کام زبان کرتی ہے ، وہی کام بعض اوقات زیادہ بہتر طور پر قلم کے ذریعہ انجام دیا جاتا ہے ؛ اسی لئے قلم بھی جہاد کا ایک ذریعہ ہے، جہاد مال کے ذریعہ بھی ہے ، خود قرآن مجید میں اس کا ذکر موجود ہے (توبہ:۴۱) جہاد کا تعلق انسان کے نفس اور جسمانی مشقتوں سے بھی ہے ؛ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے حج کو بھی جہاد قرار دیا: ’’الحج جہاد‘‘ (سنن ابی ماجہ، حدیث نمبر: ۲۹۸۹) کیوںکہ حج میں انسان نفس کے خلاف مجاہدہ کرتا ہے ، نہ اپنی مرضی کا لباس پہن سکتا ہے ، نہ خوشبو کا استعمال کرسکتا ہے ، اور اسے اپنی بعض اور جائز خواہشات کو بھی چھوڑنا پڑتا ہے ، جہاد کی آخری شکل وہ ہے ، جس کو ’’جنگ‘‘کہا جاتا ہے ، جس کا مقصد عدل و انصاف قائم کرنے اور شر و فساد کو دُور کرنے میں آخری درجہ کی قوت کا استعمال کرنا ہے ۔
غرض کہ جہاد کا مقصد متعین ہے ؛ لیکن آلات و وسائل متعین نہیںہیں ، ہر زمانہ میں جو طاقت اور جو صلاحیت انصاف کوقائم کرنے میں ممد و معاون ہوسکتی ہے ، ظالموں کو زیر کرسکتی ہے ، اور سماج پر اثر انداز ہوسکتی ہے ، ان وسائل کا استعمال کیا جانا چاہئے ، اس سلسلہ میں قرآن مجید کا یہ ارشاد ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ جہاں تک ہوسکے، ان کے مقابلہ میں طاقت کو منظم کرو: وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْـتَـطَعْتُمْ‘‘۔ (انفال:۶۰)
مشہور مفسر علامہ فخر الدین رازی ؒنے لکھا ہے کہ یہ ہر ایسی چیز کو شامل ہے ، جس کے ذریعہ دشمن سے مقابلہ کیا جاسکتا ہو: ھذا عام فی کل ما یتقوّی بہ علی حرب العدوّ‘‘ (مفاتیح الغیب:۸ ؍۵۲۳) --- اس سے کون سے ہتھیار مراد ہیں ؟ مفسرین نے اس کو بھی متعین کرنے کی کوشش کی ہے ؛ چنانچہ بعض اہل علم نے تیز اندازی مراد لی ہے ؛ کیوںکہ رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کے پڑھنے کے بعد تین دفعہ فرمایا کہ اصل قوت تیر اندازی ہی میں مضمر ہے: ألا إن القوۃ الرمي(مسلم، حدیث نمبر: ۵۰۵۵) خود قرآن مجید کی اس آیت میں گھوڑوں کا ذکر کیا گیا ہے ، جو گذشتہ زمانوں میں جنگ کے لئے ایک مفید ، ذہین اور تیزگام سواری تھی ، ذکر تیر کا ہو یا گھوڑے کا ، یہ ایک علامتی لفظ ہے ، جس کا مقصد ہے ہر دور کے مؤثر اور طاقتور ترین ہتھیار کا استعمال ۔
اللہ کا شکر ہے کہ ہم لوگ جس دور میں زندگی گذار رہے ہیں ، یہ جمہوری تصورات کے غلبہ کا عہد ہے ، جس میں رائے عامہ کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہوتی ہے ، جس میں پُر امن طریقہ پر انقلاب لانا ممکن ہے ، جس میں اکثریت کی رائے کا خاص وزن ہوتا ہے ، جمہوری نظام حکومت کا ایک اہم اور بنیادی عمل الیکشن ہے ، الیکشن میں زیادہ ووٹ حاصل کرکے اقتدار حاصل کیا جاسکتا ہے ، اور ووٹ کی طاقت استعمال کرکے حکومتیں بدلی جاسکتی ہیں ؛ اس لئے حکومتوں کو گرانے اور ختم کرنے اور حکومتوں کی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کے لحاظ سے الیکشن بھی اس قوت میں شامل ہے ، جس کے جمع کرنے کا قرآن مجید نے حکم دیا ہے ، خصوصاً ہندوستان جیسے ملک میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں ، الیکشن کی سیاست میں مسلمانوں کے حصہ لینے کی بے حد اہمیت ہے ۔
الیکشن میں حصہ لینے کا ایک پہلو یہ ہے کہ مسلمان زیادہ سے زیادہ ووٹ ڈالنے کی کوشش کریں ، یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ بعض اہل علم نے ووٹ کو گواہی کے حکم میں رکھا ہے ، گواہی دینا بوقت ضرورت واجب ہے اور اس سے بڑی ضرورت کیا ہوگی کہ فرقہ پرست پارٹیوں کو بام اقتدار تک پہنچنے سے روکا جائے ، عملی طور پر یہ بات دیکھی گئی ہے کہ جہاں کہیں مسلمانوں نے ووٹ ڈالنے کا اہتمام کیا ، وہاں سیکولر طاقتوں کو آگے بڑھانے اور فسطائی قوتوں کو پیچھے ہٹانے میں مدد ملی ہے۔
اس طاقت کو استعمال کرنے کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ مسلمان اپنے ووٹ کو بکھراؤسے بچائیں اور پورے شعور کے ساتھ متحد ہوکر کسی ایک پارٹی کو ووٹ دیں ، اکثریت تو ووٹ تقسیم ہونے کے باوجود اپنی سیاسی قوت برقرار رکھ سکتی ہے ؛ لیکن اس اقلیت کا کوئی وزن باقی نہیں رہ سکتا، جس کی صفیں شکستہ ہوں، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اجتماعیت کے
ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد ہے: ید اللّٰه علی الجماعۃ(نسائی، حدیث نمبر:۴۰۲۰) قرآن مجید کی ہدایت ہے کہ مسلمان مل جل کر رسی کو تھامیں اور پراگندہ ہونے سے بچیں : وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا (آل عمران: ۱۰۳) انتشار اوربکھراؤ ، ہوا خیزی ، شکست و ریخت اور قومی کمزوری کا سبب ہوتا ہے : وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْهَبَ رِيْحُكُمْ وَاصْبِرُوْا (انفال: ۴۶)
الیکشن میں مسلمانوں کے ووٹ کو بے اثر کرنے کے لئے دُور رس اور بظاہر دلفریب سازشیں بھی کی جاتی ہیں ، اور مضبوط مسلمان اُمیدوار کے مقابلہ مسلمان اُمیدوار ہی کھڑے کئے جاتے ہیں ، ایسے موقع پر ضروری ہے کہ صورت حال کو دیکھتے ہوے فیصلہ کیا جائے اورجیسے اسلام دشمن طاقتیں عہد نبوی میں منافقین کو اپنا آلہ کار بناتی تھیں ؛ لیکن مسلمان اس سے متأثر نہیں ہوتے تھے ، اس اُسوہ کو سامنے رکھا جائے ، اگر کچھ مسلمان اُمیدوار پیسے لے کر مسلمان یاسیکولر اُمیدوار کو نقصان پہنچانے کے لئے کھڑے ہوں تو یہ یقیناً رشوت ہے اوربمقابلہ عام رشوتوں کے زیادہ گناہ کا باعث ہے ؛ کیوںکہ اس کے نقصانات بہت زیادہ ہیں ۔
ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کو اپنی الگ سیاسی جماعت قائم کرنی چاہئے ، جس کا رجحان بڑھ رہا ہے ، یا دوسری سیاسی جماعتوں میں شرکت کو ترجیح دینی چاہئے ؟ ---میں سمجھتاہوں کہ اس سلسلہ میں ہر جگہ ایک ہی طریقہ کار کو اختیار نہیں کیا جاسکتا ؛ بلکہ مختلف علاقوں کے حالات کے اعتبار سے الگ الگ طریقے مفید ہوسکتے ہیں ، مسلم جماعتوں کے قیام میں یہ فائدہ ضرور ہے کہ وہ قانون ساز اداروں میں کسی تحفظ کے بغیر مسلمانوں کی بات پہنچاسکتے ہیں، ہندوستان کی بعض ریاستوں میں اس کا بڑا فائدہ محسوس کیا گیا ہے ، خاص کر جنوبی ہند اور مشرقی ہند کے بعض اور علاقوں میں بھی مسلمانوں کی ایسی سیاسی تنظیمیں فائدہ مند ثابت ہوئی ہیں ؛ لیکن یہ ایسی جگہ پر ہی ممکن ہے ، جہاں مسلم آبادی مرتکز ہو ، جہاں مسلم آبادی مرتکز نہ ہو ، وہاں مسلمانوں کی اپنی پارٹیوں کا قیام فائدہ مند کے بجائے نقصاندہ ثابت ہوسکتا ہے ؛ کیوںکہ اگر آپ کے ایک دو ممبر منتخب بھی ہوگئے ؛ لیکن دوسری پارٹیوں نے یہ محسوس کرلیا کہ مسلمانوں کا ووٹ انھیں نہیں ملا تو آپ ان پر کوئی پریشر قائم نہیں کرسکتے اور صرف ایک دو ممبر کے ذریعہ آپ کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا ، ایسی جگہوں میں یہ بات زیادہ مفید ہوتی ہے کہ اپنی علاحدہ پارٹی قائم نہ کی جائے ؛ لیکن اپنے مطالبات کا ایجنڈہ مرتب کیا جائے ، اور اس کو ان پارٹیوں کے سامنے پیش کیا جائے جو اپنے آپ کو سیکولر کہتی ہیں اور پھر ایسی پارٹی کے حق میں متحد ہوکر کوشش کی جائے ، جو مسلم ایجنڈہ کو قبول کرے ، رسول اللہ ﷺ نے بہت سے کام غیر مسلم بھائیوں کے ساتھ مل کر اشتراک کے ساتھ کئے ہیں ، آپ نے ظلم و نا انصافی اورلا قانونیت کو دُور کرنے کے لئے ’حلف الفضول ‘میں شرکت فرمائی ہے ، اگرچہ یہ واقعہ ، نبوت سے پہلے کا ہے ؛ لیکن نبی بنائے جانے کے بعد بھی آپ نے فرمایا کہ اگر مجھے اب بھی اس کی طرف دعوت دی جائے تو میں قبول کروںگا : لو دعیت إلیہ لأجبت (مسند البزار ، حدیث نمبر: ۱۰۲۴، ۱؍۱۸۵) اسی طرح ہجرت کے بعد آپ نے مدینہ منورہ میں ایک ایسی مملکت کی داغ بیل ڈالی ، جس میں مسلمانوں کو اور یہودیوں کو یکساں طور پر مذہبی آزادی حاصل ہو اور دونوں یکساں طور پر دفاع کی ذمہ داریاں ادا کریں ، جب تک خود یہودیوں کی طرف سے بد عہدی کے واقعات پیش نہیں آئے ، یہ معاہدہ باقی رہا، یہ ایک مثال ہے کہ رسول اللہ ﷺ ضرورت و مصلحت کے مطابق غیر مسلم قوموں کے ساتھ اشتراک اختیار فرمایا کرتے تھے ، اس لئے جن سیاسی پارٹیوں کا ایجنڈہ کھلے طور پر اسلام اورمسلمانوں سے عداوت پر مبنی نہ ہو ، ان پارٹیوں میں شرکت اور ایک باعزت معاہدہ کے تحت ان کے حق میں ووٹ دینے میں کوئی حرج نہیں ۔
جہاں مسلم پارٹیوں کا قیام اور ان کے اُمیدواروں کا کھڑا ہونا مسلمانوں کے لئے نقصان کا باعث ہو اور اس سے فرقہ پرست پارٹیوں کو تقویت پہنچتی ہو ، وہاں مسلم پارٹیوں کا اُمیدوار کھڑا کرنا یقیناً ایک نادرست عمل ہی کہلائے گا ، تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ بہت سی سیٹیں بھارتیہ جنتا پارٹی کو مسلمان پارٹیوں کی بدولت حاصل ہوئیں ؛ چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ بعض دفعہ مسلم اکثریت جگہوں سے فرقہ پرست ممبران منتخب ہوجاتے ہیں ، یہ ایمانی فراست ، سیاسی شعور اور ملی حمیت کے مغائر ہے !
غرض کہ جمہوری نظام میں ووٹ ایک اہم طاقت اور ایک مؤثر ہتھیار ہے اورمسلمانوں کا ملی فریضہ ہے کہ وہ نہایت شعور ، ہوش مندی اور سمجھداری کے ساتھ اس ہتھیار کا استعمال کریں ، نہ اپنے دشمنوں کے آلہ کار بن جائیں اور نہ جذبات کی رو میں بہہ کر ایسا قدم اُٹھائیں جو خود ان کے لئے نقصاندہ ہو۔

*🔹 سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ*
khitab e juma 03 May 2024.pdf
3.6 MB
#سلسلہ_خطاب_جمعہ نمبر: 223

🗓 تاریخ: 03 مئی 2024 بمطابق 23 شوال المکرم 1445

🎯 نکاح کا مسنون طریقہ

📌 خطاب جمعہ ڈاؤنلوڈ کرنے کے لیے 👇اس لنک پر کلک کریں:
https://t.me/AIMPLB_Official/8001
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
▪️ہر ہفتہ بورڈ کی طرف سے جاری ہونے والا خطبۂ جمعہ حاصل کرنے کے درج ذیل نمبر پر اپنا نام اور پتہ بذریعہ وہاٹس ایپ ارسال کریں:
http://wa.me/+918657219464

🎁 منجانب: سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
*_🔸#تکبیر_مسلسل🔹_*

*🎯 ’’سیاسی بے پناہی ‘‘*

نفرت کی آبیاری اس ملک میں ایک عرصہ سے ہورہی ہے، فرقہ پرست قوتوں نے منظم اور مرتب طریقے پر مسلمانوں سے نفرت اور اسلام کی تصویر کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے اور وہ تدریجاً اس کام میں کامیاب ہوئے، آر ایس ایس اور دیگر فرقہ پرست قوتوں کیساتھ تمام سیکولر جماعتوں نے بوقت ضرورت اور بقدر ضرورت اپنے سیاسی مفاد کے لئے مسلم دشمنی کا سہارا لیا ہے، *مسلمانوں کی ایک بڑی کمی یہ ہے کہ وہ اپنے ملی ذمہ داریوں کو دوسروں پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں کے حوالے کردیا کرتے ہیں اور خود تسلسل کے ساتھ کسی سیاسی، سماجی، اقتصادی پرو گرام کو ملت کاکام سمجھ کر اور اپنی ذاتی ترجیح بنا کر نہیں کیا کرتے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہم ’’سیاسی بے پناہی ‘‘ کے عالم میں ہیں* اور اللہ کی دی ہوئی بہت ساری نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کے باوجود اپنی نا سمجھی ،پلاننگ کی کمی، مسلسل کام نہ کرنے کی وجہ سے ہم لوگ پیچھے ہوگئے ہیں اور خود کو بے سہارا محسوس کررہے ہیں۔
میرا احساس ہے کہ صاحب پیغام امت کے لئے جتنے سرمایہ، جتنے علم وعمل اور جتنی توانائی کی ضرورت ملی زندگی کے لئے ہوسکتی ہے، اس سے بہت زیادہ نعمتیں اللہ تعالی نے اپنے کرم سے ہندوستان میں ملت اسلامیہ کے حوالہ کر رکھی ہیں، کمی ہے تو ایماندارانہ تجزیہ اور غور و فکر کی، درد مندی کی، پلاننگ کی، اور مسلسل کام کی۔

*✍🏼 امیر شریعت حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ*
_(سابق جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)_

🎁 پیشکش: *سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ*
https://www.facebook.com/share/p/Tz5ZDb6DAQgsXWix/?mibextid=oFDknk
*🔹 #तकबीर_ए_मुसलसल 🔸*

*🎯 "राजनीतिक बे-पनाही"*

इस देश में लंबे समय से नफ़रत की खेती चल रही है, सांप्रदायिक शक्तियों ने योजनाबद्ध तरीके से मुसलमानों के ख़िलाफ़ नफ़रत फैलाने और इस्लाम की छवि को विकृत करने की कोशिश की है और वे धीरे-धीरे इस कार्य में सफल हुए हैं, संघ एवं अन्य सांप्रदायिक शक्तियों के साथ सभी धर्मनिरपेक्ष दलों ने मिलकर आवश्यकतानुसार और समयानुसार अपने राजनीतिक हितों के लिए मुस्लिम दुश्मनी का सहारा लिया है, *मुसलमानों की एक बड़ी कमी यह है कि वे अपनी मिल्ली ज़िम्मेदारियों को दूसरों पर विश्वास करते हुए उन्हीं के हवाले कर दिया करते हैं और स्वयं निरन्तरता के साथ किसी राजनीतिक, सामाजिक, आर्थिक कार्यक्रम को मिल्लत का कार्य समझ कर और अपनी व्यक्तिगत प्राथमिकता बना कर नहीं करते जिसका परिणाम यह है कि आज हम "राजनीतिक बे-पनाही" की हालत में हैं* और अल्लाह की दी हुई ढेरों नेमतों से लाभ उठाने के बावजूद हमारी नासमझी, योजना की कमी, निरंतर काम की कमी के कारण हम लोग पीछे हो गये हैं और असहाय महसूस कर रहे हैं।
मुझे लगता है कि सन्देश वाली उम्मत के जीवन के लिए जितनी पूंजी, ज्ञान की मात्रा, काम की मात्रा और ऊर्जा की आवश्यकता मिल्ली जीवन के लिए हो सकती है, उससे बहुत अधिक नेमतें अल्लाह तआला ने अपने करम से हिंदुस्तान में मिल्लत-ए-इस्लामिया के हवाले कर रखी हैं, कमी है तो ईमानदार विश्लेषण और चिंतन-मनन की, दर्दमन्दी की, योजना की और निरन्तर कार्य करने की।

✍🏻 *अमीर शरीयत हज़रत मौलाना मुहम्मद वली रहमानी साहब र.अ.*
(पूर्व महासचिव ऑल इंडिया मुस्लिम पर्सनल लॉ बोर्ड)

🎁 प्रस्तुति: *सोशल मीडिया डेस्क ऑल इंडिया मुस्लिम पर्सनल लॉ बोर्ड*
https://www.facebook.com/share/p/tuKBNiyMtbD8H6ke/?mibextid=oFDknk
*🔰مظلوموں کا اتحاد*

*_🖋 حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم_*

https://www.facebook.com/share/p/ys7AUCEq1KkW9KYL/?mibextid=oFDknk
————————————————
قرآن مجید کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء جب بھی کسی قوم میں آئے ، تو عام طور پر ان کا سابقہ دو طبقوں سے پیش آیا ، ایک ’’ملأ قوم‘‘ ، یعنی قوم کے سر برآور دہ لوگ ، جن کو باعزت اور بلند مرتبت سمجھا جاتا ، دوسرے وہ لوگ جن کو قرآن نے ’’ ارا ذل قوم ‘‘ یا’’مستضعفین‘‘ سے تعبیر کیا ہے ، یعنی قوم کے معمولی اور کمزور لوگ ، جن کو سماج میں بے وزن اور کم حیثیت خیال کیا جاتا ہے ، ہر نبی کی دعوت اپنی قوم میں ایک اجنبی دعوت کی حیثیت سے اُبھرتی تھی ، قوم کے سربرآوردہ لوگ اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہو جاتے تھے ؛ البتہ ان میں جو لوگ حقیت پسند اور نیک خو ہوتے تھے ، وہ اپنی بڑائی کو قربان کر نبی کی دعوت پر لبیک کہتے تھے ؛ لیکن ابتداء ً ان کی تعداد بہت کم ہوتی تھی ، جو لوگ معمولی سمجھے جاتے ان کو دعوتِ حق قبول کرنے میں کوئی عار نہ ہوتی ، وہ پہل کرتے اور پھر ظلم و جور کی بھٹی میں تپائے بھی جاتے ، غالباً یہ بھی نظام غیبی کے تحت ہوتا ؛ کہ چوںکہ وہ پہلے سے مظلوم و ستم رسیدہ ہوتے ؛ اس لئے ان کے لئے ظلم و زیادتی اور تحقیر و تذلیل کا رویہ کسی درجہ میں قابل تحمل ہوتا ۔
دعوت حق کو قبول کرنے میں سردارانِ قوم ہی اصل میں رکاوٹ بنتے ہیں، اہلِ مکہ نے آپ ﷺکی کس قدر مخالفت کی ، اس لئے نظامِ غیبی کے تحت غزوۂ بدر میں تمام سرداران مکہ جمع کر دیئے گئے ، اور وہ سب بدر میں ہلاک ہوئے ، اسی کو رسول اللہ ﷺنے صحابہ ؓ سے فرمایا کہ مکہ نے اپنے جگر کے ٹکڑے تمہارے سامنے ڈال دیئے ہیں ، بدر کے بعد اہلِ مکہ کے دو ہی قابلِ ذکر سردار باقی رہ گئے ، ابو سفیان بن حرب اور صفوان بن اُمیہ ، اور ان دونوں نے فتح مکہ کے بعد اسلام کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیا ، مدینہ میں جو اسلام کی اشاعت آسانی کے ساتھ اورتیز رفتاری سے ہوئی ، تو اس کی ایک وجہ وہی تھی ، جس کی طرف حضرت عائشہؓ نے اشارہ فرمایا ہے کہ آپ ﷺکی بعثت سے پہلے اوس و خزرج کی خانہ جنگی میں عبد اللہ بن ابی کے علاوہ صف ِاوّل کے تمام قائدین لقمۂ اجل بن چکے تھے ؛ اس لئے یہاں اسلام کے خلاف مزاحمت کرنے والی کوئی منظم طاقت موجود نہیں تھی ، عبد اللہ بن ابی نے اپنے اندرونی نفاق کے ذریعہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ؛ لیکن انصارِ مدینہ پر نشۂ ایمانی چڑھ چکا تھاکہ وہ کسی اور چیز کو خاطر میں نہیں لاتے تھے ، گویا خدا کے غیبی نظام کے تحت بعثت محمدی سے پہلے ہی سرداران مدینہ رخصت ہو چکے تھے اور مدینہ کی سرزمین اسلام کے لئے نرم و ہموار ہو چکی تھی ۔
یہی صورتِ حال مختلف انبیاء کرام کے ساتھ پیش آئی ہے، حضرت نوح علیہ السلام نے جب اپنی قوم کو حق کی طرف بلایا تو یہی طبقہ ان کی دعوت پر ایمان لایا ، جو لوگ ان کے معاند تھے ، وہ کہا کرتے تھے کہ ہم آپ پر کیسے ایمان لائیں ؛ حالاں کہ نیچ لوگ آپ پر ایمان لائے ہیں ؟ قَالُوا اَنُؤْمِنُ لَـکَ وَاتَّبَعَکَ الْاَرْذَلُوْنَ(شعراء:۱۱۱) شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی ؒ نے ’’ ارذلون ‘‘ کا ترجمہ ’’ کمینہ ‘‘ سے کیا ہے ، اس تعبیر سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ اس طبقہ کو کتنی حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے ، قرآن نے ایک اور مقام پر قومِ نوح کی اس تمسخر آمیز گفتگو کا ذکر کیا ہے ، کہ سرداران قوم نے حضرت نوح علیہ السلام سے کہا کہ ہم کو تو آپ ہم ہی جیسے ایک انسان نظر آتے ہیں اورآپ کی اتباع ان لوگوں نے کی ہے جو ہم میں نیچ لوگ ہیں : وَمَا نَرَاکَ اتَّبَعَکَ إِلاَّ الَّذِیْنَ ھُمْ اَرَاذِلُنَا (ہود:۲۷)
ہم جس ملک میں رہتے ہیں ، اس میں کچھ لوگوں نے اپنے آپ کو ’’ ملأ قوم‘‘ بنا رکھا ہے ، اور لوگوں کے ذہن میں یہ عقیدہ بسا دیا ہے کہ وہ فرمانروائی اور حکمرانی ہی کے لئے پیدا کئے گئے ہیں ؛ کیوں کہ ان کی پیدائش خدا کے سر اور بازؤں سے ہوئی ہے ، وہ خدا اور بندہ کے درمیان واسطہ ہیں ، ایک بہت بڑی قوم کو انھوں نے پیدا ئشی غلام بنا رکھا ہے ، اور ان کے دل ودماغ میں یہ بات بیٹھا دی ہے کہ وہ نیچ اور کم تر ہیں ، وہ دوسروں کی خدمت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں ، پہلا طبقہ برہمنوں اور اونچی ذات کے لوگوں کا ہے جن کا عددی تناسب بہت معمولی ہے ؛ لیکن وہ ملک میں ۶۵ فیصد کلیدی عہدوں پر قابض ہیں اور اقتدار کے دروبام پر ان کا ایسا قبضہ ہے کہ کوئی پتہ ان کی مرضی و منشاء کے بغیر حرکت نہیں کرپاتا، یہی قرآن کی اصطلاح میں اس ملک کے ملا ٔقوم ہیں ، جن کا عمومی مزاج یہی ہے کہ جب تک حالات کے ہاتھوں مجبور نہ ہو جائیں عدل و انصاف اور سچائی کے سامنے سر خمیدہ نہیں ہوتے ۔
دوسرا طبقہ ’’ دلت ‘‘ کا ہے ، یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں قرآن میں ’’ارا ذل قوم‘‘ کی تعبیر آئی ہے کہ لوگ انھیں نیچ ، گنوار اور کم تر خیال کیا کرتے تھے ، ہندوستان میں یہ قوم ہزاروں سال سے ظلم و جور کی چکی میں پیسی جارہی ہے اور انتہائی غیر انسانی رویہ کا شکار ہے ، اب جب کہ سیاسی مصلحتوں کے تحت کسی قدر ان کی آؤ بھگت ہو رہی ہے ، انھیں تحفظات دیئے جار ہے ہیں ، الیکشن کے موقع پر انھیں منانے کی کوشش کی جاتی ہے ، پھر بھی سماجی زندگی میں وہ ایک باعزت قوم کا مقام حاصل کرنے میں ناکام ہیں ، اگر وہ گھڑے کو ہاتھ لگادیں تو اس پانی کو پھینک دیا جاتا ہے ، وہ کسی برہمن کے دوش بدوش بیٹھ کر کھانہیں سکتے ، اس ملک میں اعلیٰ ترین انتظامی قابلیت رکھنے کے باوجود جگ جیون رام ملک کے وزیر اعظم نہیں بن سکے ؛ کیوں کہ وہ اچھوت قوم سے تعلق رکھتے تھے ، ہندو قوم میں عقیدہ کے درجہ میں یہ تصور موجود ہے کہ یہ لوگ خدا کے پاؤں سے پیدا کئے گئے ہیں ، ان کا کام ہی اونچی ذات کے لوگوں کی خدمت ہے ، اگر کسی سے یہ کہا جائے کہ چوں کہ آپ بہت ہی حقیر اور نیچ ہیں ، اس لئے میں آپ کو فلاں سہولت دے رہا ہوں ، تو بتائیے کہ یہ بجائے خود کس درجہ رسوا کن اور ذلت آمیز بات ہے !
جو لوگ مظلوم ، دبے کچلے ، اور دبائے ہوئے ہوں ، ان کی مدد کرنا مسلمانو ںکے لئے صرف سیاسی مصلحت نہیں ؛بلکہ دینی اور ملی فریضہ ہے ؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
تمہیں کیا ہوا کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان لوگوں کے واسطے نہیں لڑتے ، جو مغلوب ہیں ، مرد ، عورتیں اور بچے ۔ (نساء:۷۵)
قرآن نے یہاں مغلوبوں کے لئے ’’ مستضعفین‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے ، یعنی وہ لوگ جن کو دبایا گیا ہے ، اگر یہ کہا جائے کہ دلت بھی اس ملک کے ’’ مستضعفین‘‘ ہیں تو شاید بے جانہ ہو ؛ اس لئے ان کو ساتھ لینا اور اس ملک کے ظالموں کو مشترک تدبیر کے ذریعہ ظلم سے باز رکھنا ہمارا اسلامی فریضہ ہے ، بد قسمتی سے ہم نے اس اہم کام کی طرف سنجیدگی کے ساتھ توجہ نہیں دی ؛ بلکہ ہندوؤں کی اونچی برادری سے متاثر ہو کر ان کے ساتھ کم و بیش وہی رویہ اختیار کیا ؛ بلکہ ہم نے خود اپنی قوم میں بھی مختلف دیواریں کھڑی کرلیں ، بعض اوقات یہ دیواریں اتنی اونچی ہو جاتی ہیں کہ پاس کا آدمی نظر نہیں آتا ۔
اس صورت حال نے ہمیں دوہرا نقصان پہنچایا ہے ، ایک تو اس ملک میں دعوت اسلام کا کام نہ ہونے کے درجہ میں ہے ، اگر ہم اس طبقہ سے قریب ہوتے تو دعوت کے وسیع مواقع پیدا ہو سکتے تھے ، ہر قوم میں دعوتِ حق کی فطری ترتیب یہی رہی ہے ، کہ پہلے ایسے مستضعفین نے اس پر لبیک کہا ہے ، پھر جب ان کی بہت بڑی تعداد نے اسلام قبول کر لیا تو بالآخر جو طبقہ انھیں نیچ گردانتا تھا ، اس کے لئے بھی حلقہ بگوش اسلام ہونے کے سوا چارہ نہیں رہا ، پہلے مکہ کے غلاموں نے اسلام قبول کیا ، پھر اہلِ مدینہ نے ، آخر ایک وقت ایسا آیا کہ سردارانِ مکہ بھی اسلام لانے پر مجبور ہوئے ۔
اسلام کی بنیادی تعلیم وحدتِ الہ اور وحدتِ انسانیت ہے ، یعنی خدا ایک ہے اور تمام انسانیت ایک ہے ، کالے ، گورے ، عرب ، عجم کی کوئی تفریق نہیں ، ایک ہی مسجد میں سب کو خدا کی عبادت کرنی ہے ، جو شخص دین سے زیادہ واقف اور عمل کے اعتبار سے زیادہ صاحبِ تقویٰ ہو ، وہ نماز میں امام ہوگا ، خواہ کسی خاندان کا ہو ، اور اس کی چمڑی کا رنگ کیسا بھی ہو ، انسانوں کا کوئی طبقہ خدا اور انسانوں کے درمیان واسطہ نہیں ؛ بلکہ ہر انسان براہِ راست خدا سے مانگتا اورخدا سے پاتا ہے ، یہ انسانی مساوات کا تصور اتنا فطری اور مبنی بر انصاف ہے کہ جن قوموں کو نیچ سمجھا جاتا ہے وہ اس کو اپنے لئے بہت بڑی رحمت باور کرتی ہیں ، اگر اسلام کے اس عظیم اُصولِ زندگی کو ان محروم و مظلوم لوگوں کے سامنے پیش کیا جاتا تو ممکن نہیں تھا کہ وہ اس سے متاثر نہیں ہوں ، اور اس ابر ِرحمت کے سایہ میں آنے سے انکار کریں ، مگر افسوس ، اور صد ہزار افسوس ! کہ ہم نے کبھی سنجیدگی سے اس کام کی طرف توجہ نہیں دی ۔
اس سے دوسرا نقصان سیاسی ہوا ، آج سیاسی اعتبار سے ہم خود اچھوت ہیں ، ہماری آبادی کے تناسب اور قومی اداروں میں ہماری تعداد کے درمیان کوئی نسبت نہیں ، اگر مسلمان اس طبقہ کو اپنے ساتھ لینے میں کامیاب ہو جاتے ، جن کی تعداد ملک میں ساٹھ ، پینسٹھ فیصد سے کم نہیں ، تو اگر ہم بادشاہ نہیں ہوتے تو بادشاہ گر ضرور ہوتے ، جو لوگ اس ملک میں مسلمانوں کے خلاف فسادات کراتے ہیں اور فسادات کی منصوبہ بندی کرتے ہیں ، وہ دلتوں ہی کو اپنا ہتھیار اور آلۂ کار بناتے ہیں ، اگر ہم انہیں قریب کر لیں تو ہم ان کے ہاتھ سے ان کے ہتھیار چھیننے میں کامیاب ہو جائیں ۔
وقت ابھی بھی گیا نہیں ہے ، اور ہمیں اس پہلو پر پوری گہرائی کے ساتھ سونچنے اور غور کرنے کی ضرورت ہے ، موجودہ حالات میں ایک منصوبہ کے ساتھ اس طبقہ کو قریب کرنا چاہئے ، مسلمان قائدین اور سیاسی تنظیموں کو چاہئے کہ دلت سیاسی و سماجی قائدین کے ساتھ تبادلۂ خیال کریں ، انھیں قریب کریں ، اور ان کی ذہن سازی کریں ، بعض الیکشنوںمیں اس کا کامیاب تجربہ ہوا ہے ؛ اس لئے مسلمان قائدین کوا علیٰ سطح پر دلت قائدین سے ربط قائم کرنا چاہئے ، یہ وقت کی نہایت اہم ضرورت ہے ! سماجی سطح پر بھی دلت طبقہ سے رابطہ استوار کرنا ضروری ہے ، مسلمان خوشی و غم کے مواقع پر ایسی تقریب رکھیں ، جن میں انھیں مدعو کریں ، شادی بیاہ کے موقع پر انھیں تحفے دیں ، مسلمانوں کے زیر ِانتظام اسکولوں میں انھیں داخلے دیا کریں ، اور جو ممکن ہو ان کے ساتھ رعایت کریں ، دعوتوں میں ان کے ساتھ کھائیں ، پئیں ، ان کو بھائی ، بہن ، چچا ، خالہ کہہ کر مخاطب کریں ، ایسے الفاظ کے ساتھ ان سے خطاب نہ کریں ، یا ان کا ذکر نہ کریں جن سے تذلیل و تحقیر کی بو آتی ہو ، موقع بموقع اسلام کی مساوات کی تعلیم کو ان کے سامنے رکھیں ، اگر ہم اپنے رویہ کو ان کے ساتھ درست کرلیں ، تو ان شاء اللہ وہ جلد اور بہت آسانی کے ساتھ آپ کی طرف راغب ہو جائیںگے ، ایک ایسی قوم جو انسان تسلیم کئے جانے کے لئے جد و جہد کر رہی ہے ، اس سے تھوڑی سی محبت بھی دل جیتنے کے لئے کافی ہے ، اس لئے ضرورت ہے کہ ہم اس معاملہ کی اہمیت کو محسوس کریں اور ایک ٹھکرائی ہوئی قوم کو سینہ سے لگائیں ، اور انھیں محبت کی سوغات دیں ، اس میں ہماری جان و مال کی حفاظت ہے ، عزت و آبر وکا تحفظ ہے ، سیاسی حقوق کا تحفظ ہے اور سب سے بڑھ کر اس سے دعوت کے وسیع مواقع حاصل ہو سکتے ہیں ۔

*🔸 سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ*