Maulana Hameedullah Lone Hafidahullah
447 subscribers
1.32K photos
443 videos
263 files
336 links
Official Telegram channel of Shaykhul Mashaa'ikh Maulana Hameedullah Lone Kashmiri Hafidahullah
Download Telegram
Guarantee Of Paradise By Prophet (Ṣallallāhu-'Alaihi Wa Sallam) For Promising And Fulfilling 6 Deeds 👇

The Messenger of Allāh Ṣallallāhu-'Alaihi Wa Sallam said: “Guarantee me six things in yourselves and I will guarantee you Jannah;

• Be truthful when you speak
• And fulfill your (pledge) when you make a promise
• And pay (in full) when you are entrusted
• And protect your private parts
• And lower your gaze
• And hold your hands back from touching (what's unlawful).”

● [سلسلة الأحاديث الصحيحة ١٤٧٠ ، حسنه الألباني]
•••بزرگوں کی خدمت میں حاضری کا فائدہ•••

از:حضرت شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم

میرے شیخ حضرت والا (حضرت ڈاکٹر عبدالحئی عارفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ) فرمایا کرتے تھے کہ (بزرگوں کی)مجلس میں جو باتیں ہوتی ہیں ، بعض لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ان باتوں کو یاد کرلیں ۔ مگر یہ باتیں یاد نہیں ہوتیں ۔ اس پر اپنا واقعہ سنایا کہ میں بھی حضرت تھانوی قدس اللہ سرہٗ کی مجلس میں جب حاضر ہوتا تو یہ دل چاہتا کہ حضرت والا کی باتیں لکھ لیا کروں ، بعض لوگ لکھ لیا کرتے تھے۔ مجھ سے تیز لکھا نہیں جاتا تھا اس لئے میں لکھنے سے رہ جاتا تھا۔ میں نے ایک دن حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا کہ حضرت! میرا دل چاہتا ہے کہ ملفوظات لکھ لیا کروں ۔ مگر لکھا جاتا نہیں ، اور یاد رہتے نہیں ہیں ۔ بھول جاتا ہوں ۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے جواب میں فرمایا کہ لکھنے کی کیا ضرورت ہے خود صاحبِ ملفوظ کیوں نہیں بن جاتے؟ حضرت والا فرماتے ہیں کہ میں تو تھرّا گیا کہ میں کہاں صاحبِ ملفوظ بن سکتا ہوں ۔ پھر حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ بات دراصل یہ ہے کہ جو بات حق ہو اور فہم سلیم پر مبنی ہو، صحیح فکر پر مبنی ہو۔ جب ایسی بات تمہارے کان میں پڑگئی، اور تمہارے دل نے اسے قبول کرلیا، وہ بات تمہاری ہوگئی اب چاہے وہ بات بعینہ انہی لفظوں میں یاد رہے یا نہ رہے، جب وقت آئے گا، انشاء اللہ اس وقت یاد آجائے گی، اور اس پر عمل کی توفیق دہوجائے گی۔
بزرگوں کی خدمت میں جانے اور ان کی باتیں سننے کا یہی فائدہ ہوتا ہے کہ وہ کان میں باتیں ڈالتے رہتے ہیں ۔ ڈالتے رہتے ہیں ۔ یہاں تک کہ وہ باتیں انسان کی طبیعت میں داخل ہوجاتی ہیں ، اور پھر وقت پر یاد آجاتی ہیں ۔

•بزرگوں کے ملفوظات، حالات، سوانح پڑھنے کی اہمیت

میں آج سوچتا ہوں کہ حضرت والد ماجد قدس اللہ سرہٗ، حضرت ڈاکٹر صاحب قدس اللہ سرہٗ اور حضرت مولانا مسیح اللہ خاں صاحب قدس اللہ سرہٗ، ان تینوں بزرگوں سے میرا تعلق رہا ہے، اپنا حال توتباہ ہی تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان بزرگوں کی خدمت میں حاضری کی توفیق عطا فرمادی۔ یہ ان کا فضل و کرم تھا۔ اب ساری عمر بھی اس پر شکر ادا کروں تب بھی ادانہیں ہوسکتا، یہ بزرگ کچھ باتیں زبردستی کان میں ڈال گئے۔ اپنی طرف سے نہ تو جن کی طلب تھی اور نہ خواہش اوراگر میں ان باتوں کو اب نمبر وار لکھنا چاہوں جو ان بزرگوں کی مجلسوں میں سنی تھیں ، تو فوری طور پر سب کا یاد آنا مشکل ہے لیکن کسی نہ کسی موقع پر وہ باتیں یاد آجاتی ہیں ۔ اور بزرگوں سے تعلق کا یہی فائدہ ہوتا ہے،اور جس طرح بزرگوں کی خدمت میں حاضری نعمت ہے، اور ان کی بات سننا نعمت ہے۔ اسی طرح ان بزرگوں کے ملفوظات، حالات، سوانح پڑھنا بھی اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے۔ آج یہ حضرات موجود نہیں ہے مگر الحمد للہ سب باتیں لکھی ہوئی چھوڑ گئے ہیں ان کو مطالعہ میں رکھنا چاہئے۔ یہ باتیں کام آجاتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ہمیں ان بزرگوں کا دامن تھامے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
Islamabad-JUMMAH_BAYAN
<unknown>
[•••جمعہ بیان•••]

شیخ المشائخ عارف باللہ حضرتِ اقدس مولانا حمیداللہ لون صاحب حفظہ اللہ
بمقام: مسجد عائشہ رض سرنل اسلام آباد
بزبان: كشميری

07/12/2018
The account of the user that created this channel has been inactive for the last 1 month. If the account of the creator remains inactive in the next 9 days, it will self-destruct and the channel will lose its creator.
تبلیغی جماعت میں کوتاہیوں کی اصلاح

لیکن یہاں ایک بات اور واضح کردوں کہ میں ’’تبلیغی جماعت‘‘ کی تائید میں ان جملوں کو لکھتے ہوئے یہ نہیں کہنا چاہتا کہ اس جماعت کے بہت سے افراد میں، جو علمی و عملی افراط و تفریط کی باتیں پیدا ہو گئی ہیں، وہ بھی صحیح ہیں؛ بل کہ یہاں یہ کہنا ہے کہ اس جماعت کا اصل مقصد و کام اور جس نیک ارادے کے تحت اس کا اجرا ہوا اور حضرت اقدس شاہ محمد الیاس کاندھلویؒ کے درد منددل نے امت کے ساتھ دردمندانہ و مشفقانہ برتاؤ کرتے ہوئے جس عظیم و جلیل کام کا بیڑہ اٹھایا، کیا اس میں کسی حرف گیری کی گنجائش ہے؟ کیا اس کو قرآن و سنت کے خلاف ٹھہرانے کا کوئی جواز ہے؟ حق یہ ہے کہ ’’تبلیغی جماعت‘‘ کے کام و مقصد سے اختلاف میرے نزدیک ناجائز ہے۔

ہاں! بہت سی جماعتوں کی طرح اور بہت سی تحریکوں کی طرح وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ یہاں بھی بعض بے اعتدالیاں و غلطیاں لوگوں میں پیدا ہو گئی ہیں، جن میں سے بعض علمی غلطیاں ہیں، تو بعض عملی کوتاہیاں ہیں، ہم ان کو صحیح نہیں سمجھتے اور نہ صحیح قرار دیتے ہیں؛ بل کہ اصلاحی جذبے سے ان کی بھی اصلاح کی کوشش کو ضروری خیال کرتے ہیں؛ تاکہ یہ جماعت غلو فی الدین کی بیماری سے حفاظت میں رہے۔ اس لیے ہم تبلیغی جماعت سے منسلک علما سے خاص طور پر یہ گزارش کرتے ہیں کہ جماعت کے کام میں جو بے اعتدالیاں و افراط و تفریط کی باتیں پیدا ہو گئی ہیں، جن میں سے بعض زیادہ سخت بھی ہیں، ان کی اصلاح کی کوشش سے کبھی دریغ نہ کریں؛ تاکہ اس مفید ترین و عظیم ترین کام میں غلو پیدا ہو کر وہ قابل اعتراض نہ بن جائے؛ کیوں کہ ہم سب دین و شریعت کے پابند ہیں اور ہمیں بھی اسی طرح غلو سے بچنے کا حکم ہے، جس طرح سبھی لوگوں کو حکم ہے۔
اسی لیے ہمارے اکابر نے ہمیشہ ایک جانب اس جماعت سے بھر پور تعاون کیا ہے، تو دوسری جانب اس کے اندر پیدا ہو نے والی بے اعتدالیوں پر بھی متنبہ کیا ہے اور یہی ہمارے اکابر کا اعتدال و توسط ہے اور غلو سے پاک رویہ ہے، جس کی ہم سب کو اتباع کرنا چاہیے۔

حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے اپنے خطبات میں ایک جگہ نہایت معتدل بات فرمائی ہے، اس کو یہاں نقل کردینا مناسب ہے ، آپ نے فرمایا:

’’ ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کسی بھی جماعت کا پھیل جانا اور اس کے پیغام کا دور دور تک پہنچ جانا ،اگر صحیح طریقے سے ہو تو یہ قابل خیر مقدم ہے اور اس صورت میں اس جماعت کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے؛ لیکن اگر اس جماعت میں خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں یا اس کے اندر غلط فکر پیدا ہو رہی ہے، تو پھر تعاون کے ساتھ ساتھ اس کی غلطی پر اس کو متنبہ کرنا بھی ضروری ہے ؛کیوں کہ ایسا نہ ہو کہ یہ بہترین جماعت، جس سے اللہ تعالیٰ نے اتنا بڑا کام لیا،کہیں غلط راستے پر نہ پڑ جائے۔‘‘

(۱) الغرض ایک ہے ’’تبلیغی جماعت‘‘ کا اصل پیغام و نظام و طریق کار، اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں؛ لہٰذا اس کی مخالفت در اصل تعصب اور اللہ تعالیٰ سے بے تعلقی اور آخرت سے بے خوفی کا نتیجہ ہے۔

اور دوسرا ہے اس جماعت میں وقت کے گزرنے کے ساتھ بے اعتدالیوں و غلطیوں، علمی و عملی غلو پسندیوں کا سلسلہ، یہ بے شک قابلِ اصلاح و محتاجِ تنبیہ ہے اور علما کی ذمے داری ہے کہ وہ اس پر لوگوں کو متنبہ کرتے رہیں اور اصلاحی اقدام کرتے رہیں اور جو لوگ اس میں لگے ہوئے ہیں، ان کو چاہیے کہ جب مقصود ہمارا اللہ کی رضا ہے اور معتبر علما دلائل کی روشنی میں کوئی قابلِ گرفت بات پر گرفت فرمائیں، تو خود کو قابلِ اصلاح سمجھ کر اصلاح کر لیں اور غلوو بے اعتدالی سے اپنے آپ کو بچائیں اور ایسے وقت علما کی بات کی قدر کریں اور یہ سمجھیں کہ یہ حضرات ہمارے مصلح ہیں، جو ہماری اصلاح کر تے اور ہمیں گمراہیوں سے بچاتے ہوئے ہمیں جنت میں لے جانا چاہتے ہیں، بالخصوص جب کہ ان علما کا مخلص ہونا بھی معلوم ہو اور اہل ِحق میں سے ہونا ثابت ہو، تو اہل ِحق ہونے اور دین پسند ہو نے کا تقاضا ہی یہ ہے کہ علما کی بات کو مانیں، اگر چہ کہ وہ بہ ظاہر آپ کے ساتھ تبلیغی گشتوں و چلوں میں نہ جاتے ہوں؛ کیوں کہ دین کے اور بھی بہت سے کام ان کے ذمے ہو تے ہیں۔

(غلو فی الدین ، مفتی شعیب اللہ خان مفتاحی صاحب تصانیف کثیرہ)