پارا چنار ۾ هڪ ڀيرو ٻيهر دهشتگردي، ڪار بم ڌماڪي ۾ 24 ڄڻا شهيد، 90 زخمي https://t.co/jcwoGch2gp
Noorulqurannews
پارا چنار ۾ هڪ ڀيرو ٻيهر دهشتگردي، ڪار بم ڌماڪي ۾ 24 ڄڻا شهيد، 90 زخمي
ڪرم ايجنسي جي هيڊ ڪوارٽر پارا چنار کي هڪ ڀيرو ٻيهر دهشتگردن وار ڪيو. ڌماڪي ۾ 24 ڄڻا شهيد ۽ 90 زخمي ٿي پيا آهن. پارا چنار ۾ صبح سوير دهشتگردن ڦاٽڪ وٽ ليويز اهلڪارن تي فائرنگ بعد بارود سان ڀريل گاڏي عورتن جي امام بارگاهه سان ٽڪرائي ڇڏي.
" پنجگانہ نمازوں کے ترک کرنے والوں کے آسمانی نام "
حضور اکرم صل الله علیہ و آل وسلم نے فرمایا :
جب تم میں سے کوئی شخص " فجر کی نماز " چھوڑتا ہے تو آسمان سے ایک منادی اسے " یا خاسر " ( اے خسارہ اٹھانے والا ) کے نام سے پکارتا ہے -
جب تم میں سے کوئی شخص " ظہر کی نماز " چھوڑتا ہے تو منادی اسے " یا غادر " ( اے عہد شکن ) کے نام سے پکارتا ہے -
جب تم میں سے کوئی شخص " عصر کی نماز " چھوڑتا ہے تو منادی اسے " یا فاجر " ( اے فجور کرنے والے ) کے نام سے پکارتا ہے -
جب تم میں سے کوئی شخص " مغرب کی نماز " چھوڑتا ہے تو منادی اسے " یا کافر " ( اے کافر ) کے نام سے پکارتا ہے -
جب تم میں سے کوئی شخص " عشاء کی نماز " چھوڑتا ہے تو منادی اسے ندا کرتا ہے کہ کیا تیرا رب نہیں ہے ؟؟
{ ہدیتہ الشیعہ ، صفحہ _326 }
حضور اکرم صل الله علیہ و آل وسلم نے فرمایا :
جب تم میں سے کوئی شخص " فجر کی نماز " چھوڑتا ہے تو آسمان سے ایک منادی اسے " یا خاسر " ( اے خسارہ اٹھانے والا ) کے نام سے پکارتا ہے -
جب تم میں سے کوئی شخص " ظہر کی نماز " چھوڑتا ہے تو منادی اسے " یا غادر " ( اے عہد شکن ) کے نام سے پکارتا ہے -
جب تم میں سے کوئی شخص " عصر کی نماز " چھوڑتا ہے تو منادی اسے " یا فاجر " ( اے فجور کرنے والے ) کے نام سے پکارتا ہے -
جب تم میں سے کوئی شخص " مغرب کی نماز " چھوڑتا ہے تو منادی اسے " یا کافر " ( اے کافر ) کے نام سے پکارتا ہے -
جب تم میں سے کوئی شخص " عشاء کی نماز " چھوڑتا ہے تو منادی اسے ندا کرتا ہے کہ کیا تیرا رب نہیں ہے ؟؟
{ ہدیتہ الشیعہ ، صفحہ _326 }
🌴🕋جمعرات اور جمعہ کے فضائل🕋🌴
واضح ہے کہ جمعہ کو تمام ایام پر ایک خاص امتیاز اور شرف حاصل ہے۔ چنانچہ حضرت رسول اﷲ کا فرمان ہے کہ شب جمعہ وجمعہ کی چوبیس ساعتیں ہیں اور ہر ایک ساعت میں خداوند عالم چھ لاکھ انسانوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے۔ امام جعفر صادق -کا ارشاد ہے کہ زوال جمعرات سے زوال جمعہ کے درمیان جس شخص کو موت واقع ہو وہ فشار قبر سے محفوظ رہے گا۔ حضرت ہی کا فرمان ہے کہ جمعہ کا خاص احترام اور حق ہے ۔اس حق کو ضائع نہ کرو ، اس دن کی عبادت میں کوتاہی نہ کرو۔ اچھے اعمال سے خدا کا قرب حاصل کرو اور تمام محرمات کو ترک کرو کیونکہ خدا تعالیٰ اس روز اطاعت کا ثواب بڑھا دیتاہے۔ گناہوں کی سزاختم کردیتاہے اور دنیاوآخرت میںمومنین کے درجات بلند کرتا ہے اور روز جمعہ کی طرح شب جمعہ کی بھی بہت فضیلت ہے اور ممکن ہو تو شب جمعہ صبح تک دعاونماز میں گزارو۔ شب جمعہ میں خدا مومنین کی عزت بڑھانے کے لیے ملائکہ کو پہلے آسمان پر بھیجتا ہے تاکہ وہ انکی نیکیوں میں اضافہ کریں اور انکے گناہ مٹاڈالیں ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ رحیم وکریم ہے اور اسکی عنایتیں اور عطائیں وسیع ہیں۔معتبر حدیث میں رسول اﷲ (ص)سے مروی ہے کہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک مومن اپنی حاجت کیلئے دعا کرتا ہے مگر خدا اسکی وہ حاجت پوری کرنے میں تاخیر کرتا ہے تاکہ روز جمعہ اسکی حاجت کو پورا کرے اور جمعہ کی فضیلت کی وجہ سے کئی گناہ معاف کردیتا ہے ۔ نیز فرمایا کہ جب برادران یوسف (ع)نے حضرت یعقوب(ع) سے کہا کہ وہ انکے گناہوں کی معافی کیلئے دعا کریںتو انہوںنے فرمایا: سَوْفَ اَسْتَغْفِرُلَکُمْ رَبّی کہ عنقریب میں تمہارے گناہوں کی بخشش کے لیے اپنے پروردگار سے دعا کروںگا، یہ تاخیر اس لیے کی گئی کہ جمعہ کی سحر کو دعا کی جائے تا کہ وہ قبولیت تک پہنچے۔ حضرت (ع)سے یہ بھی مروی ہے کہ شب جمعہ میں مچھلیاں سرپانی سے باہر نکالتی ہیں اور صحرائی جانور اپنی گردنیں بلند کرکے بارگاہ الہی میں عرض کرتے ہیں کہ اے پروردگارا انسانوں کے گناہوں کے باعث ہم پر عذاب نہ کرنا۔ امام محمدباقر(ع) فرماتے ہیں کہ ہر شب جمعہ ایک فرشتہ ابتدائِ شب سے آخر شب تک عرش کے اوپر سے یہ ندا کرتا ہے کہ ہے کوئی مومن بندہ ہے جو طلوع فجر سے پہلے دنیاوآخرت کی کوئی حاجت طلب کرے تا کہ میں اس کی حاجت پوری کروں ۔ ہے کوئی مومن بندہ جوطلوع فجر سے پہلے گناہوں سے معافی کا طالب ہو اور میں اس کے گناہ معاف کردوں کوئی بندئہ مومن ہے کہ جس کی روزی میں نے تنگ کر رکھی ہو وہ طلوع صبح سے قبل مجھ سے وسعت رزق طلب کرے پس میں اس کی روزی میں وسعت عطا کروں، آیا کوئی بیمار مومن ہے جو مجھ سے طلوع صبح سے پہلے شفا کا طالب ہو تو میںاسے شفادے دوں، کوئی قیدی وغم زدہ مومن ہے جو صبح جمعہ سے پہلے مجھ سے سوال کرے تو میں اسکو قید سے رہائی دے کراس کا غم دور کروں، آیا کوئی مظلوم مومن ہے جو طلوع صبح سے پہلے ظالم کے ظلم کو دور کرنے کا مجھ سے سوال کرے تو میں اس کیلئے ہر ظلم کرنے والے سے انتقام لوں اور اس کا حق اسے دلادوں ،پس وہ فرشتہ جمعہ کی صبح طلوع ہونے تک اسی طرح آواز دیتا رہتا ہے ۔ امیرالمومنین -سے منقول ہے کہ حق تعالیٰ نے جمعہ کو تمام دنوں پر فضیلت دی ہے اور اسکو روز عید قرار دیا ہے ، اس طرح شب جمعہ کو بھی باعظمت قرار دیا ہے۔ جمعہ کی ایک فضیلت یہ ہے کہ اس روز خدا سے جو سوال کیا جائے وہ پورا کر دیا جاتا ہے اگر کوئی گروہ مستحق عذاب ہے لیکن وہ شب جمعہ یا روز جمعہ دعا کرے تو اسے عذاب سے چھٹکارا مل جاتاہے۔حق تعالی روز جمعہ مقدر کو محکم ا ور ناقابل تغیر بنا دیتا ہے ۔لہذا شب جمعہ عام راتوں سے اور روز جمعہ عام دنوں سے افضل ہے۔ حضرت امام جعفر صادق -فرماتے ہیں : شب جمعہ میں گناہوں سے بچو کیونکہ اس رات کئی گنا عذاب بڑھ جاتا ہے جیسا کہ اس شب میں نیکیوں کا ثواب بھی کئی گنا زیادہ ہوتا ہے، اگر کوئی شخص شب جمعہ میں گناہ سے پرہیز کرے تو خدا اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیتا ہے اور اگر کوئی شخص شب جمعہ میں اعلانیہ گناہ کرے تو خدا اسکو ساری زندگی کے گناہوں کے برابر عذاب دے گااور اس گناہ کا عذاب بھی زیادہ ہوگا.
Copied
واضح ہے کہ جمعہ کو تمام ایام پر ایک خاص امتیاز اور شرف حاصل ہے۔ چنانچہ حضرت رسول اﷲ کا فرمان ہے کہ شب جمعہ وجمعہ کی چوبیس ساعتیں ہیں اور ہر ایک ساعت میں خداوند عالم چھ لاکھ انسانوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے۔ امام جعفر صادق -کا ارشاد ہے کہ زوال جمعرات سے زوال جمعہ کے درمیان جس شخص کو موت واقع ہو وہ فشار قبر سے محفوظ رہے گا۔ حضرت ہی کا فرمان ہے کہ جمعہ کا خاص احترام اور حق ہے ۔اس حق کو ضائع نہ کرو ، اس دن کی عبادت میں کوتاہی نہ کرو۔ اچھے اعمال سے خدا کا قرب حاصل کرو اور تمام محرمات کو ترک کرو کیونکہ خدا تعالیٰ اس روز اطاعت کا ثواب بڑھا دیتاہے۔ گناہوں کی سزاختم کردیتاہے اور دنیاوآخرت میںمومنین کے درجات بلند کرتا ہے اور روز جمعہ کی طرح شب جمعہ کی بھی بہت فضیلت ہے اور ممکن ہو تو شب جمعہ صبح تک دعاونماز میں گزارو۔ شب جمعہ میں خدا مومنین کی عزت بڑھانے کے لیے ملائکہ کو پہلے آسمان پر بھیجتا ہے تاکہ وہ انکی نیکیوں میں اضافہ کریں اور انکے گناہ مٹاڈالیں ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ رحیم وکریم ہے اور اسکی عنایتیں اور عطائیں وسیع ہیں۔معتبر حدیث میں رسول اﷲ (ص)سے مروی ہے کہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک مومن اپنی حاجت کیلئے دعا کرتا ہے مگر خدا اسکی وہ حاجت پوری کرنے میں تاخیر کرتا ہے تاکہ روز جمعہ اسکی حاجت کو پورا کرے اور جمعہ کی فضیلت کی وجہ سے کئی گناہ معاف کردیتا ہے ۔ نیز فرمایا کہ جب برادران یوسف (ع)نے حضرت یعقوب(ع) سے کہا کہ وہ انکے گناہوں کی معافی کیلئے دعا کریںتو انہوںنے فرمایا: سَوْفَ اَسْتَغْفِرُلَکُمْ رَبّی کہ عنقریب میں تمہارے گناہوں کی بخشش کے لیے اپنے پروردگار سے دعا کروںگا، یہ تاخیر اس لیے کی گئی کہ جمعہ کی سحر کو دعا کی جائے تا کہ وہ قبولیت تک پہنچے۔ حضرت (ع)سے یہ بھی مروی ہے کہ شب جمعہ میں مچھلیاں سرپانی سے باہر نکالتی ہیں اور صحرائی جانور اپنی گردنیں بلند کرکے بارگاہ الہی میں عرض کرتے ہیں کہ اے پروردگارا انسانوں کے گناہوں کے باعث ہم پر عذاب نہ کرنا۔ امام محمدباقر(ع) فرماتے ہیں کہ ہر شب جمعہ ایک فرشتہ ابتدائِ شب سے آخر شب تک عرش کے اوپر سے یہ ندا کرتا ہے کہ ہے کوئی مومن بندہ ہے جو طلوع فجر سے پہلے دنیاوآخرت کی کوئی حاجت طلب کرے تا کہ میں اس کی حاجت پوری کروں ۔ ہے کوئی مومن بندہ جوطلوع فجر سے پہلے گناہوں سے معافی کا طالب ہو اور میں اس کے گناہ معاف کردوں کوئی بندئہ مومن ہے کہ جس کی روزی میں نے تنگ کر رکھی ہو وہ طلوع صبح سے قبل مجھ سے وسعت رزق طلب کرے پس میں اس کی روزی میں وسعت عطا کروں، آیا کوئی بیمار مومن ہے جو مجھ سے طلوع صبح سے پہلے شفا کا طالب ہو تو میںاسے شفادے دوں، کوئی قیدی وغم زدہ مومن ہے جو صبح جمعہ سے پہلے مجھ سے سوال کرے تو میں اسکو قید سے رہائی دے کراس کا غم دور کروں، آیا کوئی مظلوم مومن ہے جو طلوع صبح سے پہلے ظالم کے ظلم کو دور کرنے کا مجھ سے سوال کرے تو میں اس کیلئے ہر ظلم کرنے والے سے انتقام لوں اور اس کا حق اسے دلادوں ،پس وہ فرشتہ جمعہ کی صبح طلوع ہونے تک اسی طرح آواز دیتا رہتا ہے ۔ امیرالمومنین -سے منقول ہے کہ حق تعالیٰ نے جمعہ کو تمام دنوں پر فضیلت دی ہے اور اسکو روز عید قرار دیا ہے ، اس طرح شب جمعہ کو بھی باعظمت قرار دیا ہے۔ جمعہ کی ایک فضیلت یہ ہے کہ اس روز خدا سے جو سوال کیا جائے وہ پورا کر دیا جاتا ہے اگر کوئی گروہ مستحق عذاب ہے لیکن وہ شب جمعہ یا روز جمعہ دعا کرے تو اسے عذاب سے چھٹکارا مل جاتاہے۔حق تعالی روز جمعہ مقدر کو محکم ا ور ناقابل تغیر بنا دیتا ہے ۔لہذا شب جمعہ عام راتوں سے اور روز جمعہ عام دنوں سے افضل ہے۔ حضرت امام جعفر صادق -فرماتے ہیں : شب جمعہ میں گناہوں سے بچو کیونکہ اس رات کئی گنا عذاب بڑھ جاتا ہے جیسا کہ اس شب میں نیکیوں کا ثواب بھی کئی گنا زیادہ ہوتا ہے، اگر کوئی شخص شب جمعہ میں گناہ سے پرہیز کرے تو خدا اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیتا ہے اور اگر کوئی شخص شب جمعہ میں اعلانیہ گناہ کرے تو خدا اسکو ساری زندگی کے گناہوں کے برابر عذاب دے گااور اس گناہ کا عذاب بھی زیادہ ہوگا.
Copied
🕋 قرآن اور اهل بیت علیهم السلام ♻
آج ہم اس دنیا میں زندگی بسر کر رہے ہیں کہ معارف قرآن سے دور ہوتے جارہے ہیں. تمام فتنوں نے رات کی تاریکی کی طرح پورے عالم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے. پس ایسی شرائط میں نجات کا واحد راستہ
🌹 قرآن کریم اور اھلبیت علیھم السلام
ہیں.
پيغمبر اكرم صلى الله عليه و آله فرماتے ہیں:
💐 «إذا الْتَبَسَتْ عَلَيْكُمْ الْفِتَنُ كَقطع اللَّيلِ الْمُظْلِم فَعَلَيكُم بِالقُرآنِ»
جب بھی فتنے رات کی تاریکی کی طرح آپ پر آجائیں تو قرآن کریم کی تلاوت کرو.
نيز فرمایا:
🌹 قرآن کریم اللہ تعالی کا دسترخواں ہے جتنا ہو سکتا ہے اس کی ضیافت سے فائدہ اٹھاؤ
اور اپنی گفتار میں فرمایا:
«إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ كِتَابَ اللَّهِ وَ عِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا أَبَداً» (مستدرک الوسائل، ج 11، ص 372)
میں تمہارے درمیان اللہ تعالی کی کتاب اور اپنی عترت (اھل بیت (ع) چھوڑے جارہا ہوں اگر تم نے ان سے تمسک کیا تو کبھی بھی گمراہ نہیں ہوں گے.
اس میں شک ہی نہیں اگر بشریت ان دو نور اور کمال اور حبل المتین الھی کے منبع سے تمسک رہتے تو کبھی بھی گمراہ نہ ہونگے🍃🍃
آج ہم اس دنیا میں زندگی بسر کر رہے ہیں کہ معارف قرآن سے دور ہوتے جارہے ہیں. تمام فتنوں نے رات کی تاریکی کی طرح پورے عالم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے. پس ایسی شرائط میں نجات کا واحد راستہ
🌹 قرآن کریم اور اھلبیت علیھم السلام
ہیں.
پيغمبر اكرم صلى الله عليه و آله فرماتے ہیں:
💐 «إذا الْتَبَسَتْ عَلَيْكُمْ الْفِتَنُ كَقطع اللَّيلِ الْمُظْلِم فَعَلَيكُم بِالقُرآنِ»
جب بھی فتنے رات کی تاریکی کی طرح آپ پر آجائیں تو قرآن کریم کی تلاوت کرو.
نيز فرمایا:
🌹 قرآن کریم اللہ تعالی کا دسترخواں ہے جتنا ہو سکتا ہے اس کی ضیافت سے فائدہ اٹھاؤ
اور اپنی گفتار میں فرمایا:
«إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ كِتَابَ اللَّهِ وَ عِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا أَبَداً» (مستدرک الوسائل، ج 11، ص 372)
میں تمہارے درمیان اللہ تعالی کی کتاب اور اپنی عترت (اھل بیت (ع) چھوڑے جارہا ہوں اگر تم نے ان سے تمسک کیا تو کبھی بھی گمراہ نہیں ہوں گے.
اس میں شک ہی نہیں اگر بشریت ان دو نور اور کمال اور حبل المتین الھی کے منبع سے تمسک رہتے تو کبھی بھی گمراہ نہ ہونگے🍃🍃
🏴باب الحوائج علیہ السلام کاحلم🏴
ھمارے ساتویں امام موسی کاظم علیہ السلام کےحلم کی مثال کہیں نہیں ملتی. آپ کے اسم مبارک کے ساتھ ' کاظم ، کالقب آپکے اسی وصف کی ترجمانی کرتاہے(والکاظمین الغیظ سورہ آل عمران آیت 134) آپ ھمیشہ غصہ پی جایاکرتے تھے.
بنی عباس کی حکومت کےدوران جب پوری ملت اسلامیہ میں آزادی نام کی کوئی چیز نہ تھی، لوگوں کی جائیداد کوبیت المال کےنام پرضبط کیا جاہاتھا اور اسکو اپنےذاتی مفاد کےلئے صرف کیاجارہاتھا . عوام فقرو فاقہ کابری طرح شکار تھے ، تعلیم و تمدن.سے بالکل بےبہرہ تھے ، صرف انہیں چیزوں کارواج تھا جس سے حکومت کی قداست باقی رہے .لوگ اپنی جہالت اور نادانی کی بناپر کبھی امام کی شان میں ناسزا الفاظ کہتے مگر امام علیہ السلام اپنے اخلاق و کردار سے غم و غصہ کو روکتے اور انھیں اخلاقیات کی تعلیم دیتے.
⚫ایک شخص خلیفہ دوم کے خاندان سے مدینے میں زندگی بسر کیاکرتا تھا اور جب کبھی امام سے آمنا سامنا ھوتا تو آپکی شان میں گستاخی کرتا.
امام کے.بعض اصحاب نے امام کی خدمت میں عرض کیا کہ اگر آپ اجازت دیں توھم اس کا کام تمام کردیں . لیکن امام ع ھمیشہ انکو اس اقدام سے روکتے رہے.
ایک دن امام ع نے اس کے گھر کاپتہ دریافت کیا . معلوم ھوا کہ وہ مدینے کے باہر کھیتی باڑی کا کام کرتا ہے امام ع اسی حالت میں اسکے قریب گئے اس نے وہیں سے چیخ کرکہا :
میرا کھیت نہ روندئیے !
(یعنی ادھر نہ آئیے میرے فصل خراب نہ کیجئے در حالانکہ امام ع کوئی اسکی فصل تو خراب نہیں کر رہے تھے لیکن وہ اپنے اس رویہ سے حضرت کی توھین کرنا چاھتا تھا.)
مگر امام علیہ السلام نے اس کے اس برتاؤ پر توجہ نہ دی . اور اسکے قریب چلے آئے اور سواری سے اتر کر بہت ہی خندہ پیشانی سے اس سے پوچھا :
---- بھائی اس زراعت پر تم نے کتنا خرچ کیاہے؟
------- سو دینار
------ کتنے منافع کی امید ہے؟
------ مجھے کوئی غائب کاتوعلم نہیں ہے؟!
------ پھر بھی تمھیں کتنی امیدہے؟ے
-------- تقریبا" دوسو 200. دینار فائدے کی امید ہے.
حضرت نے اسے تین سو 300. دینار اسے مرحمت فرمائے اور فرمایا اس کے ساتھ یہ زراعت بھی تمھاری، اور جتنے کی امید ہے انشاءاللہ تمھیں اتنا ملے گا.
وہ شخص فورا" کھڑا ہوگیا اور امام کی پیشانی مبارک کا بوسہ دیا اور عرض کرنےلگا:
مولی! میں نے آپکی خدمت میں بہت جسارت کی ہے، میں اپنی گستاخیوں کے سلسلے میں آپ سے معافی کا خواستگار ھوں .
امام ع نے ہلکا سا تبسم فرمایا اور واپس چلے آئے.
دوسرے دن یہی شخص مسجد میں بیٹھا ھوا تھا کہ امام علیہ السلام وارد ھوئے ، جیسے ہی اس کی نگاہ امام پر پڑی کہنےلگا:
(الله اعلم حيث يجعل رسالته سورہ انعام آیت 146)
''خداوند عالم بھتر جانتا ہے کہ وہ پیغام (رسالت) کس کے سپرد کرے.،،
اشارہ اس طرف تھا کہ امامت اور خلافت صرف امام موسی کاظم ع کو زیب دیتی ہے.
لوگوں نے آکر اس سے دریافت کیا کہ آخر معاملہ کیاہے ؟ پہلے تو بہت برا بھلا کہا کرتے تھے.
اس نے امام کے حق میں دعا کرنا شروع کردی اور لوگ اس سے بار بار اس تبدیلی کی وجہ پوچھے جارہے تھے.
ایک دن امام علیہ السلام نے ان لوگوں سے دریافت کیا جو اس کے قتل کا ارداہ رکھتے تھے ، کہ بتاؤ کون سا اقدام زیادہ بہتر تھا، جو تم چاھتے تھے یا جو میں چاھتا تھا۔
میں نے تھوڑی سی مقدار میں اصلاح کر دی اور اس کا شر کا خاتمہ کر دیا۔◼
📚اعلام الوری ج2 ص26
📚ارشاد مفید ج 2ص233
📚کشف الغمہ ج2 ص228
📚بحار الانوار ج48 ص102
📚عوالم العلوم ج21 ص191
🏴🏴🏴🏴🏴🏴🏴🏴
◼التماس دعا:العبد◼
ھمارے ساتویں امام موسی کاظم علیہ السلام کےحلم کی مثال کہیں نہیں ملتی. آپ کے اسم مبارک کے ساتھ ' کاظم ، کالقب آپکے اسی وصف کی ترجمانی کرتاہے(والکاظمین الغیظ سورہ آل عمران آیت 134) آپ ھمیشہ غصہ پی جایاکرتے تھے.
بنی عباس کی حکومت کےدوران جب پوری ملت اسلامیہ میں آزادی نام کی کوئی چیز نہ تھی، لوگوں کی جائیداد کوبیت المال کےنام پرضبط کیا جاہاتھا اور اسکو اپنےذاتی مفاد کےلئے صرف کیاجارہاتھا . عوام فقرو فاقہ کابری طرح شکار تھے ، تعلیم و تمدن.سے بالکل بےبہرہ تھے ، صرف انہیں چیزوں کارواج تھا جس سے حکومت کی قداست باقی رہے .لوگ اپنی جہالت اور نادانی کی بناپر کبھی امام کی شان میں ناسزا الفاظ کہتے مگر امام علیہ السلام اپنے اخلاق و کردار سے غم و غصہ کو روکتے اور انھیں اخلاقیات کی تعلیم دیتے.
⚫ایک شخص خلیفہ دوم کے خاندان سے مدینے میں زندگی بسر کیاکرتا تھا اور جب کبھی امام سے آمنا سامنا ھوتا تو آپکی شان میں گستاخی کرتا.
امام کے.بعض اصحاب نے امام کی خدمت میں عرض کیا کہ اگر آپ اجازت دیں توھم اس کا کام تمام کردیں . لیکن امام ع ھمیشہ انکو اس اقدام سے روکتے رہے.
ایک دن امام ع نے اس کے گھر کاپتہ دریافت کیا . معلوم ھوا کہ وہ مدینے کے باہر کھیتی باڑی کا کام کرتا ہے امام ع اسی حالت میں اسکے قریب گئے اس نے وہیں سے چیخ کرکہا :
میرا کھیت نہ روندئیے !
(یعنی ادھر نہ آئیے میرے فصل خراب نہ کیجئے در حالانکہ امام ع کوئی اسکی فصل تو خراب نہیں کر رہے تھے لیکن وہ اپنے اس رویہ سے حضرت کی توھین کرنا چاھتا تھا.)
مگر امام علیہ السلام نے اس کے اس برتاؤ پر توجہ نہ دی . اور اسکے قریب چلے آئے اور سواری سے اتر کر بہت ہی خندہ پیشانی سے اس سے پوچھا :
---- بھائی اس زراعت پر تم نے کتنا خرچ کیاہے؟
------- سو دینار
------ کتنے منافع کی امید ہے؟
------ مجھے کوئی غائب کاتوعلم نہیں ہے؟!
------ پھر بھی تمھیں کتنی امیدہے؟ے
-------- تقریبا" دوسو 200. دینار فائدے کی امید ہے.
حضرت نے اسے تین سو 300. دینار اسے مرحمت فرمائے اور فرمایا اس کے ساتھ یہ زراعت بھی تمھاری، اور جتنے کی امید ہے انشاءاللہ تمھیں اتنا ملے گا.
وہ شخص فورا" کھڑا ہوگیا اور امام کی پیشانی مبارک کا بوسہ دیا اور عرض کرنےلگا:
مولی! میں نے آپکی خدمت میں بہت جسارت کی ہے، میں اپنی گستاخیوں کے سلسلے میں آپ سے معافی کا خواستگار ھوں .
امام ع نے ہلکا سا تبسم فرمایا اور واپس چلے آئے.
دوسرے دن یہی شخص مسجد میں بیٹھا ھوا تھا کہ امام علیہ السلام وارد ھوئے ، جیسے ہی اس کی نگاہ امام پر پڑی کہنےلگا:
(الله اعلم حيث يجعل رسالته سورہ انعام آیت 146)
''خداوند عالم بھتر جانتا ہے کہ وہ پیغام (رسالت) کس کے سپرد کرے.،،
اشارہ اس طرف تھا کہ امامت اور خلافت صرف امام موسی کاظم ع کو زیب دیتی ہے.
لوگوں نے آکر اس سے دریافت کیا کہ آخر معاملہ کیاہے ؟ پہلے تو بہت برا بھلا کہا کرتے تھے.
اس نے امام کے حق میں دعا کرنا شروع کردی اور لوگ اس سے بار بار اس تبدیلی کی وجہ پوچھے جارہے تھے.
ایک دن امام علیہ السلام نے ان لوگوں سے دریافت کیا جو اس کے قتل کا ارداہ رکھتے تھے ، کہ بتاؤ کون سا اقدام زیادہ بہتر تھا، جو تم چاھتے تھے یا جو میں چاھتا تھا۔
میں نے تھوڑی سی مقدار میں اصلاح کر دی اور اس کا شر کا خاتمہ کر دیا۔◼
📚اعلام الوری ج2 ص26
📚ارشاد مفید ج 2ص233
📚کشف الغمہ ج2 ص228
📚بحار الانوار ج48 ص102
📚عوالم العلوم ج21 ص191
🏴🏴🏴🏴🏴🏴🏴🏴
◼التماس دعا:العبد◼
🌹ولادت با سعادت شنہشاہ وفا حضرت عباس بں علی علیہ السلام
🌈عباس بن علی کی ولادت باسعادت چار شعبان المعظم 26ھ کو ہوئی۔ انھوں نے اس وقت تک آنکھ نہیں کھولی جب تک ان کے بھائی سیدنا حضرت امام حسین علیہ السلام نے انھیں اپنے ہاتھوں میں نہیں لیا۔ بچپن ہی سے انھیں حضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ بہت مودت محبت اور عقیدت تھی۔ علی بن ابی طالب نے اس عظیم الشان بچے کا نام عباس رکھا۔
🌹ابتدائی زندگی🌹
علی بن ابی طالب نے ان کی تربیت و پرورش کی تھی۔ علی بن ابی طالب سے انھوں نے فن سپہ گری، جنگی علوم، معنوی کمالات، مروجہ اسلامی علوم و معارف خصوصاً علم فقہ حاصل کئے۔ 14 سال کی معمولی عمر تک وہ ثانی حیدرؑ کہلانے لگے۔ اسی بناء پر اُنہیں ثانی علی المرتضی ٰ بھی کہا جاتا ہے۔ عباس بن علی بچوں کی سرپرستی، کمزوروں اور لاچاروں کی خبر گيری، تلوار بازی اورمناجات و عبادت سے خاص شغف رکھتے تھے۔ ان کی تعلیم و تربیت خصو صاً کربلا کے لئے ہوئی تھی۔ لوگوں کی خبر گیری اور فلاح و بہبود کے لئے خاص طور پر مشہور تھے۔ اسی وجہ سے آپ کو باب الحوائج کا لقب حاصل ہوا۔ حضرت عباس کی نمایان ترین خصوصیت ”ایثار و وفاداری“ ہے جو ان کے روحانی کمال کی بہترین دلیل ہے۔ وہ اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے عاشق و گرویدہ تھے اورسخت ترین حالات میں بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ لفظ وفا ان کے نام کے ساتھ وابستہ ہوگیا ہے اور اسی لئے ان کا ایک لقب شہنشاہِ وفا ہے ۔ آپ عرب اور بنو ہاشمؑ کے خوبصورت ترین ہستیوں میں سے تھے۔ اسی لیے آپ کو قمر بنی ہاشمؑ بھی کہا جاتا ہے۔
🌹واقعہ کربلا اور عباس بن علی🌹
واقعہ کربلا کے وقت عباس بن علی کی عمر تقریباً 33 سال کی تھی۔ حسین بن علی نے آپ کو لشکر کا علمبردار قراردیا۔ اِسی وجہ سے آپ کا ایک لقب علمدار کربلا بھی مشہور ہے۔ آج ساری دُنیا میں جگہ جگہ شہداء کربلا کی یاد منائی جاتی ہے۔ مجلسِ عزَا وجلوس عزاداری میں کربلا کے علم کی شبیہ اور شبیہ ذوالجناح کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ حسین بن علی کے ساتھیوں کی تعداد 72 یا زیادہ سے زیادہ سو افراد پر مشتمل تھی اور لشکر یزیدی کی تعداد تیس ہزارسے زیادہ تھی مگر عباس بن علی کی ہیبت و دہشت لشکر ابن زياد پر چھائی ہوئی تھی ۔ کربلامیں کئی ایسے مواقع آئے جب عباس بن علی جنگ کا رخ بدل سکتے تھے لیکن امامؑ وقت نے انھیں لڑنے کی اجازت نہیں دی کیونکہ اس جنگ کا مقصد دنیاوی لحاظ سے جیتنا نہیں تھا۔ امام جعفر صادق، عباس بن علی کی عظمت و جلالت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کرتے تھے : ”چچا عباسؑ کامل بصیرت کے حامل تھے وہ بڑے ہی مدبر و دور اندیش تھے انہوں نے حق کی راہ میں بھائی کا ساتھ دیا اور جہاد میں مشغول رہے یہاں تک کہ درجۂ شہادت پرفائز ہوگئے آپ نےبڑ اہی کامیاب امتحان دیا اور بہترین عنوان سے اپناحق ادا کر گئے“ ۔
🌹 شہادت 🌹
10 محرم کو حسین بن علی نےان کو پیاسے بچوں خصوصاً اپنی چار سالہ بیٹی حضرت سیدہ سکینہ الحسین کے لئے پانی لانے کا حکم دیا مگر ان کو صرف نیزہ اور علم ساتھ رکھنے کا حکم دیا۔ اس کوشش میں انھوں نے اپنے دونوں ہاتھ کٹوا دیئے اور شہادت پائی۔ اس دوران ان کو پانی پینے کا بھی موقع ملا مگر تین دن کے بھوکے پیاسے شیر نے گوارا نہیں کیا کہ وہ تو پانی پی لیں اور خاندا نِ رسالت ﷺ پیاسا رہے۔ شہادت کے بعد جیسے باقی شہداء کے ساتھ سلوک ہوا ویسے ہی عباس بن علی کے ساتھ ہوا۔ ان کا سر کاٹ کر نیزہ پر لگایا گیا اور جسمِ مبارک کو گھوڑوں کے سموں سے پامال کیا گیا۔ [5] ان کا روضہ اقدس عراق کے شہر کربلا میں ہے جہاں پہلے ان کا جسم دفن کیا گیا اور بعد میں شام سے واپس لا کر ان کا سر دفنایا گیا۔ دریائے فرات جو ان کے روضے سے کچھ فاصلے پر تھا اب ان کی قبر مبارک کے اردگرد چکر لگاتا ہے۔ جو ایک دُنیا کا زندہ معجزہ ہے۔
سلام کرتا ہے مُحسن اور سارا زمانہ اس باب الحوائج قمرِ بنی ہاشم کو .....
ضو وہ شیشے میں کہاں جو الماس ميں ہے
سارے عالم کی وفا حضرت عباس ميں ہے۔
🌹اولاد و نسل 🌹
عباس بن علی کی اولاد اِس وقت دُنیا کے کافی ممالک میں پائی جاتی ہے۔ آپ علوی سید ہیں ۔ اِس لیے آپ کی اولاد دُنیا میں سادات علوی کے نام مشہور ومعروف ہے۔ سادات علوی کی آگئے مختلف شاخیں ہیں۔ اِسی لیے آپ کی اولاد عرب وعراق میں ‘‘ سادات علوی ‘‘ مصر میں ‘‘ سادات بنی ہارون ‘‘ اردن میں ‘‘ سادات بنو شہید ‘‘ یمن میں ‘‘ سادات بنی مطاع ‘‘ ایران میں ‘‘ سادات علوی ابوالفضلی ‘‘ اور برصغیر پاک وہند میں ‘‘ سادات علوی المعروف اعوان قطب شاہی ‘‘ کے عنوان سے مشہور و معروف ہے۔
📚حوالہ جات
^ 1.0 1.1 at-Tabrizi، Abu Talib (2001). Ahmed Haneef. ed. Al-Abbas Peace be Upon Him. Abdullah Al-Shahin. Qum: Ansariyan Publications. صفحات۔39–40.^ 2.0 2.1 at-Tabrizi، Abu Talib (2001). Ahmed Haneef. ed. Al-Abbas Peace be Upon Him. Abdullah Al-Shahin. Qum: Ansariyan Publications. صفحات۔45–47.↑ Lalljee, Yousuf N. (20
🌈عباس بن علی کی ولادت باسعادت چار شعبان المعظم 26ھ کو ہوئی۔ انھوں نے اس وقت تک آنکھ نہیں کھولی جب تک ان کے بھائی سیدنا حضرت امام حسین علیہ السلام نے انھیں اپنے ہاتھوں میں نہیں لیا۔ بچپن ہی سے انھیں حضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ بہت مودت محبت اور عقیدت تھی۔ علی بن ابی طالب نے اس عظیم الشان بچے کا نام عباس رکھا۔
🌹ابتدائی زندگی🌹
علی بن ابی طالب نے ان کی تربیت و پرورش کی تھی۔ علی بن ابی طالب سے انھوں نے فن سپہ گری، جنگی علوم، معنوی کمالات، مروجہ اسلامی علوم و معارف خصوصاً علم فقہ حاصل کئے۔ 14 سال کی معمولی عمر تک وہ ثانی حیدرؑ کہلانے لگے۔ اسی بناء پر اُنہیں ثانی علی المرتضی ٰ بھی کہا جاتا ہے۔ عباس بن علی بچوں کی سرپرستی، کمزوروں اور لاچاروں کی خبر گيری، تلوار بازی اورمناجات و عبادت سے خاص شغف رکھتے تھے۔ ان کی تعلیم و تربیت خصو صاً کربلا کے لئے ہوئی تھی۔ لوگوں کی خبر گیری اور فلاح و بہبود کے لئے خاص طور پر مشہور تھے۔ اسی وجہ سے آپ کو باب الحوائج کا لقب حاصل ہوا۔ حضرت عباس کی نمایان ترین خصوصیت ”ایثار و وفاداری“ ہے جو ان کے روحانی کمال کی بہترین دلیل ہے۔ وہ اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے عاشق و گرویدہ تھے اورسخت ترین حالات میں بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ لفظ وفا ان کے نام کے ساتھ وابستہ ہوگیا ہے اور اسی لئے ان کا ایک لقب شہنشاہِ وفا ہے ۔ آپ عرب اور بنو ہاشمؑ کے خوبصورت ترین ہستیوں میں سے تھے۔ اسی لیے آپ کو قمر بنی ہاشمؑ بھی کہا جاتا ہے۔
🌹واقعہ کربلا اور عباس بن علی🌹
واقعہ کربلا کے وقت عباس بن علی کی عمر تقریباً 33 سال کی تھی۔ حسین بن علی نے آپ کو لشکر کا علمبردار قراردیا۔ اِسی وجہ سے آپ کا ایک لقب علمدار کربلا بھی مشہور ہے۔ آج ساری دُنیا میں جگہ جگہ شہداء کربلا کی یاد منائی جاتی ہے۔ مجلسِ عزَا وجلوس عزاداری میں کربلا کے علم کی شبیہ اور شبیہ ذوالجناح کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ حسین بن علی کے ساتھیوں کی تعداد 72 یا زیادہ سے زیادہ سو افراد پر مشتمل تھی اور لشکر یزیدی کی تعداد تیس ہزارسے زیادہ تھی مگر عباس بن علی کی ہیبت و دہشت لشکر ابن زياد پر چھائی ہوئی تھی ۔ کربلامیں کئی ایسے مواقع آئے جب عباس بن علی جنگ کا رخ بدل سکتے تھے لیکن امامؑ وقت نے انھیں لڑنے کی اجازت نہیں دی کیونکہ اس جنگ کا مقصد دنیاوی لحاظ سے جیتنا نہیں تھا۔ امام جعفر صادق، عباس بن علی کی عظمت و جلالت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کرتے تھے : ”چچا عباسؑ کامل بصیرت کے حامل تھے وہ بڑے ہی مدبر و دور اندیش تھے انہوں نے حق کی راہ میں بھائی کا ساتھ دیا اور جہاد میں مشغول رہے یہاں تک کہ درجۂ شہادت پرفائز ہوگئے آپ نےبڑ اہی کامیاب امتحان دیا اور بہترین عنوان سے اپناحق ادا کر گئے“ ۔
🌹 شہادت 🌹
10 محرم کو حسین بن علی نےان کو پیاسے بچوں خصوصاً اپنی چار سالہ بیٹی حضرت سیدہ سکینہ الحسین کے لئے پانی لانے کا حکم دیا مگر ان کو صرف نیزہ اور علم ساتھ رکھنے کا حکم دیا۔ اس کوشش میں انھوں نے اپنے دونوں ہاتھ کٹوا دیئے اور شہادت پائی۔ اس دوران ان کو پانی پینے کا بھی موقع ملا مگر تین دن کے بھوکے پیاسے شیر نے گوارا نہیں کیا کہ وہ تو پانی پی لیں اور خاندا نِ رسالت ﷺ پیاسا رہے۔ شہادت کے بعد جیسے باقی شہداء کے ساتھ سلوک ہوا ویسے ہی عباس بن علی کے ساتھ ہوا۔ ان کا سر کاٹ کر نیزہ پر لگایا گیا اور جسمِ مبارک کو گھوڑوں کے سموں سے پامال کیا گیا۔ [5] ان کا روضہ اقدس عراق کے شہر کربلا میں ہے جہاں پہلے ان کا جسم دفن کیا گیا اور بعد میں شام سے واپس لا کر ان کا سر دفنایا گیا۔ دریائے فرات جو ان کے روضے سے کچھ فاصلے پر تھا اب ان کی قبر مبارک کے اردگرد چکر لگاتا ہے۔ جو ایک دُنیا کا زندہ معجزہ ہے۔
سلام کرتا ہے مُحسن اور سارا زمانہ اس باب الحوائج قمرِ بنی ہاشم کو .....
ضو وہ شیشے میں کہاں جو الماس ميں ہے
سارے عالم کی وفا حضرت عباس ميں ہے۔
🌹اولاد و نسل 🌹
عباس بن علی کی اولاد اِس وقت دُنیا کے کافی ممالک میں پائی جاتی ہے۔ آپ علوی سید ہیں ۔ اِس لیے آپ کی اولاد دُنیا میں سادات علوی کے نام مشہور ومعروف ہے۔ سادات علوی کی آگئے مختلف شاخیں ہیں۔ اِسی لیے آپ کی اولاد عرب وعراق میں ‘‘ سادات علوی ‘‘ مصر میں ‘‘ سادات بنی ہارون ‘‘ اردن میں ‘‘ سادات بنو شہید ‘‘ یمن میں ‘‘ سادات بنی مطاع ‘‘ ایران میں ‘‘ سادات علوی ابوالفضلی ‘‘ اور برصغیر پاک وہند میں ‘‘ سادات علوی المعروف اعوان قطب شاہی ‘‘ کے عنوان سے مشہور و معروف ہے۔
📚حوالہ جات
^ 1.0 1.1 at-Tabrizi، Abu Talib (2001). Ahmed Haneef. ed. Al-Abbas Peace be Upon Him. Abdullah Al-Shahin. Qum: Ansariyan Publications. صفحات۔39–40.^ 2.0 2.1 at-Tabrizi، Abu Talib (2001). Ahmed Haneef. ed. Al-Abbas Peace be Upon Him. Abdullah Al-Shahin. Qum: Ansariyan Publications. صفحات۔45–47.↑ Lalljee, Yousuf N. (20
👆03). Know Your Islam. New York: Tahrike Tarsile Qur'an. صفحہ۔160.↑ "Al-Abbas". اخذ کردہ بتاریخ 2006-07-30.↑ بسطامی، تحفہء حسینیہ، صفحہ 78 ۔ عربی